اسلام آباد (سب نیوز )قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے وفاقی بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے زراعت اور تعلیم کے شعبہ پر توجہ مرکوز کرنے اور ایف بی آر کے اختیارات پر چیک رکھنے پر زور دیا ہے،، جہاں حکومتی اراکین کی طرف سے بجٹ کو اچھا قراردیا گیا وہیں اپوزیشن کی طرف سے سلت تنقید کی گئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں منعقد ہوا، بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ موجودہ بجٹ کو ہم نے مسترد کیا اور لیلا بجٹ قرار دیا ہے، بھارت پھر تیاری کررہا ہے، مودی سرکار اور آر ایس ایس کے ڈی این اے میں یہ ہے۔پاکستانی قوم اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہے اور منہ توڑ جواب دے گی۔ بھارت نے اگر کوئی غلطی دوبارہ کی تو اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ہمیں وار کرنا ہوگا اور بھارت کو سبق سکھانا ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ گروتھ ریٹ 2.68 اکنامک سروے میں لکھا ہوا ہے۔ زرعی گروتھ ریٹ اعشاریہ پانچ چھ فیصد ہے، مال مویشیوں کی تعداد میں 36 لاکھ اضافہ ہوا ہے خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ایک لاکھ گدھا بڑھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اعداد شمار میں بتایا گیا ہے۔اکانومی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور چلتے ہوئے پہیے کا نام ہے۔عام پاکستانی کی قوت خرید تین سالوں میں 58 فیصد گر گئی ہیایک لیٹر دودھ کی قیمت میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔ کوکنگ آئل کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چائے کی قیمت میں 74 فیصد اضافہ ہوا، یہ ہے مہنگائی، اس کو کہتے ہیں مہنگائی۔ کوئی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ نہیں آئی، اس وقت تقریبا ساڑھے 11کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، بے روزگاری 22 فیصد تک بڑھ چکی ہیپی ڈی ایم کی تینوں حکومتوں نے 42.5 ٹریلین کے ٹیکسز نافذ کئے ہیں۔ وزیراعظم ہاس ایوان صدر کا بجٹ بڑھا رہے ہیں۔
عمر ایوب خان نے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافہ واپس کرنے کا مطالبہ کیا، اس پر اسپیکر نے کہا کہ نہ یہ فنانس نے کیا ہے نہ نیشنل اسمبلی نے کیاہ ے، جنہوں نے کیا ہے وہ کر سکتے ہیں اور وہ واپس بھی کر سکتے ہیں، کوئی مذائقہ نہیں کہ یہ واپس ہوجائے، عمر ایوب نے کہا کہ 32 لاکھ لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے13 ہزار ایک سو ارب روپیہ تین سالوں میں ملک سے نکل گیاایک ہزار 250 ارب ریونیو ٹارگٹ میں کمی آئیڈریکونین پاورز ایف بی آر استعمال کرے گا۔
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ محسن نقوی وزیراعظم سے آگے ہے جب وہ نگران وزیر اعلی تھا اس نے ساڑھے چار سو ارب کی گندم پاکستان میں لینڈ کرا دی، اس نے پنجاب کے کسانوں پر ڈرون اٹیک کر کے رکھ دیا، چینی کی بمپر کراپ ہوئی، کسی نے مشورہ دیا ہوگا کہ اس کو برآمد کروانہوں نے چینی برآمد کردی، پھر وہی چینی زیادہ ریٹ پر درآمد کررہے ہیں، لارج اسکیل مینیوفیکچرنگ منفی ہے، سالانہ 550 ارب کا پیٹرول اسمگل ہوتا ہیگیس کے سیکٹر میں 2 ہزار تین سو ارب کا گردشی قرضہ بڑھ گیا ہے
وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے شہبازشریف کو بزدل قرار دیا اپوزیشن لیڈر بتائیں کیا اسی وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ان کے لیڈر نے نہیں کہا تھا کہ کیا بھارت پر حملہ کردوں، آج جب بھارت نے حملہ کیا تو وزیر اعظم شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جواب نہیں دیا، کیا ہماری حکومت کا بھارت کو دیا گیا جواب پوری دنیا نہیں مان رہی، بھارت کو اب بھی بتانا چاہتے ہیں اگر اس نے غلطی کی تو وہ مزید جوتے ماریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ فائر بندی ہوئی ہے جنگ بندی نہیں ہوئی ،آپریشن بنیان مرصوص ختم ہوا معرکہ حق جاری ہے، فتنہ الخوارج فتنہ الہندوستان اور فتنہ السیاست ہمارے بڑے مسائل ہیں۔ بھارت کو تکلیف ہے کہ اس کے مقاصد پاکستان میں ناکام ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کا مرکز و محور بجٹ اور اعداد و شمار نہیں گدھے اور خچروں کی تعداد تھا، اپوزیشن لیڈر نے اپنی تقریر میں پانچ مرتبہ بتایا ملک میں گدھوں کہ تعدادا میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس صوبے میں گدھوں کا اضافہ ہوا ہے، ہر سال جو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے وہ اضافہ رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ میں بھی ہو۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجٹ ملک کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ملک کے حالات کو مدنظر رکھ کر ہی بجٹ تیار کیا جاتا ہے۔ جب یہ حکومت آئی تو بہت سارے چیلنجز درپیش تھے۔ ایک بڑی تلوار مسلسل لٹک رہی تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی ملک ڈیفالٹ کر جائے تو اس کے اثرات اور نقصانات کہیں زیادہ خطرناک اور دیرپا ہوتے ہیں، اور صرف حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا مسائل کا حل نہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت کو الزام دینے سے کام نہیں چلے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ نے مشکل مگر ضروری فیصلے کیے ہیں۔ ایسے حالات میں جو فیصلے موجودہ حکومت نے کیے، شاید کوئی دوسری حکومت ان فیصلوں کی ہمت نہ کر پاتی۔راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھا اور حکومت کا ساتھ دیا ہے، پیپلز پارٹی نے سیاسی معاملات کو ایک طرف رکھ کر حکومت کی حمایت کی۔ حکومت نے ملک کو سنبھالا دیا۔
انہوں نے کہا کہ قومی و عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑنا ایک بڑا چیلنج تھا، جس میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اہم کردار ادا کیا ، قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑنا ایک بڑا چیلنج تھا، اور بلاول بھٹو زرداری نے یہ مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا۔ اگر ہم اپنے سے بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں، تو اسی جذبے کے تحت ہم ایک عالمی طاقت بھی بن سکتے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف کا یہ خطاب اسمبلی میں موجود حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی توجہ کا مرکز رہا۔مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا اپوزیشن بجٹ پر تجاویز دینے کی بجائے صرف گرفتار لوگوں کی رہائی کی بات کرتی ہے۔ اپوزیشن کو بجٹ بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کرنا ،جو بات کرو فلاں کو رہا کرو، بجٹ پر بات نہیں کرتے رہا کرو رہا کرو کے نعرے لگاتے ہیں۔
بیرسٹرف عقیل ملک نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر موجود نہیں ورنہ اسے سود سمیت جواب دیتا، حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجٹ پیش کیا ہے، دنیا کہہ رہی ہے کہ پندرہ سالوں کا بہترین بجٹ پیش کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں بیوہ کی دس سال بعد پینشن بند کردینے کے فیصلے کی مخالفت کرتا ہوں، بیوہ کی ضروریات بڑھ جائیں گی مگر اس کی پینشن دس سال بعد بند کردی جائے گی۔قومی اسمبلی کے بجت اجلاس میں پی ٹی آئی رکن علی محمد خان نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے گریٹر اسرائیل کے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اسرائیل کے ایران پر حملے کا مطلب پاکستان کے لئے پیغام ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قومی اتحاد کے لئے ماضی کی تلخیوں کو بھلایا جائے، اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ سامنے آچکا ہے، بھارت اسرائیل سے الرٹ رہنا ہوگا۔علی محمد خان نے مزید کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اسلامی بلاک بنایا تو سزا دی گئی، شاہ فیصل نے اسلامی بلاک بنایا تو سزا دی گئی، بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کی تو اسے سزا دی گئی، ہم کب تک اسرائیل کے لئے ترنوالہ بنتے رہیں گے ۔ اجلاس سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا، اجلاس کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔