لاہور (سب نیوز )ترجمان پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں ہے، چینی کی قلت کی افواہیں پھیلا کر مفاد پرست عناصر ملک میں ہیجان پیدا کر رہے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مفاد پرست عناصر بے سروپا باتیں پھیلا کر شوگر انڈسٹری کے خلاف سازش کر رہے ہیں، ملک میں دوسری صنعتوں کی طرح شوگر انڈسٹری کو بھی فری کام کرنے دیا جائے۔ترجمان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ شوگر سیکٹر کو مکمل ڈی ریگولیٹ کر کے فری مارکیٹ کی سہولت دی جائے، رواں کرشنگ سیزن میں کسانوں کو گنے کا ریٹ 400 سے 750 روپے فی من دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سیزن میں چینی کے پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، گنا پاکستان کی واحد فصل ہے جس نے کسانوں کو معاشی طور پر بچایا ہے۔کچھ لالچی خوردہ فروشوں نے ہول سیل قیمتوں میں اضافے کو جواز بناتے ہوئے چینی کی خوردہ قیمت مزید 10 روپے بڑھا کر 180 روپے فی کلو کر دی۔گزشتہ ماہ چینی کی اوسط قومی قیمت 145 سے 160 روپے فی کلو تھی لیکن رمضان المبارک سے قبل بھی اس میں اضافہ ہوتا رہا اور ماہ مقدس کے دوران بھی اس میں اضافہ ہورہا ہے، جنوری کے پہلے ہفتے میں چینی کی اوسط قیمت 130 سے 150 روپے فی کلو کے درمیان تھی۔
کراچی ہول سیلرز اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے صدر رف ابراہیم نے کہا تھا کہ مجھے حکومت کا فیصلہ سازی کا عمل حیران کن لگتا ہے۔رف ابراہیم نے یاد دلایا تھا کہ پہلے حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی، جب تھوک نرخ 125 سے 130 روپے فی کلو تھے، لیکن تھوک اور خوردہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد، حکومت نے خوردہ قیمتوں کو کم کرنے کے لیے خام چینی کی درآمد کی اجازت دے دی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خام چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا یہ فارمولہ کارگر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ملز مالکان کے پاس خام چینی کو فائن شوگر میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، ملیں گنے کی کرشنگ سے ہی چینی بنا سکتی ہیں۔ رف ابراہیم نے کہا تھا کہ قیمتوں میں کمی لانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ریفائنڈ چینی کو ٹیکس فری درآمد کرنے کی اجازت دی جائے، عالمی منڈی میں اس کی قیمت 520 ڈالر فی ٹن یعنی 150 روپے فی کلو ہے ، اگر درآمد کی اجازت دی گئی تو قیمتیں یقینی طور پر کم ہوجائیں گی۔