تحریر سمعیہ علی
@Bird_0099
ہر پڑھانے والا ٹیچر تو ہوسکتا ہے، استاد نہیں ۔ یہ اگرچہ میری ذاتی رائے ہے مگر سابقہ تجربات کو مدنظررکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ غلط نہیں ہوسکتی۔
ویسے تو استاد کی درجنوں اقسام پائی جاتی ہیں جیسے: ٹرک ڈرائیور، درزی، مستری، ترکھان اور میکینک وغیرہ۔ لیکن میرا روئے سخن اس منفرد قسم کی طرف ہے جو پڑھاتا ہے۔ پہچان اس طبقے کی یہ ہے کہ اس کے علاوہ باقی ہر “استاد” کے ساتھ ایک “چھوٹا” ہوتا ہے۔
پڑھانے والوں میں بھی چند ایک ہی حقیقی معنوں میں استاد ہوتے ہیں، باقی سب میری طرح نرے پڑھانے والے۔ جو مدرس تو کہلا سکتے ہیں مگر استاد نہیں۔
استادی سے میری مراد ہے ہر فن مولا ہوجانا۔ پیشے سے تو مدرس ہو، مگر درس کے علاوہ ہر کام آتا ہو۔ اس لحاظ سے مالو سر ہی ہیں جو میرے اس “معیار” پر پورے اترتے ہیں۔ میرے زمانہ طالب علمی میں مالو صاحب علاقے کے مشہور استاد تھے۔ مجھے ان سے ملنے کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا کہ وہ دوسرے سکول میں تھے، ورنہ ان کی آدھی خصوصیات تو مجھ میں منتقل ہوہی جاتیں اور طلباء گا بگاہے مجھے خراج تحسین پیش کرتے کہ “شاباش تجھے اور تیرے استاد کو شاباش”۔ مالو صاحب نے کبھی بھی بچوں کو احساس نہیں ہونے دیا کہ “وہ نہیں جانتے” ایک بار کسی بچے نے کلاس میں پوچھا کہ سربکٹیریا کیا ہے؟ تو انھوں نے ایک شان سے جواب دیا تھا کہ بکٹیریا چارلس کی بیٹی کا نام ہے۔ بکتضجم کے اصول کے بارے میں انھوں نے فرمایا تھا کہ بکتضجم ایک یونانی ریاضی دان تھا۔ ان کا دیا ہوا جواب عموماً سوال سے زیادہ الجھا ہوا ہوتا تھا، تاکہ بچے مزید پوچھنے کی ہمت نہ کریں۔ جب کہ اپنا تو یہ حال ہے کہ بچوں کو کئی بار کہہ دیا کہ بیٹا مجھے معلوم نہیں لیکن معلوم کرکے آپ کو جواب دوں گا۔ اور زمانہ گواہ ہے کہ اپنی ناقص علمیت کا اقرار کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ نظام تدریس پراس کا اثر دو طرح سے ہوا ایک تو یہ کہ بچوں کے مقتدر حلقوں میں مالو صاحب جیسے اساتذہ کو قابل گردانا گیا جبکہ مجھ جیسوں کو قابل سے زیادہ “قابل رحم” ہی سمجھا گیا۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ مالو گروپ کو اس طرز تدریس میں مزید تجربہ ہوتا گیا اور مجھ جیسوں کے علم میں اضافہ ہوا یہ الگ بحث ہے کہ بچوں کو کس انداز تدریس سے زیادہ فائدہ ہوا؟
نہ صرف یہ کہ مالو سر کو بچوں کے حلقوں میں مقبولیت ملی بلکہ “باس” کی آنکھوں کا تارا بھی مالو صاحب ہی تھے۔ ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ ججالو صاحب جو مالو کا ہم پیشہ تھا لیکن مالو کی صحبت سے اس کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور خالص پڑھانے والا مدرس ہی رہا۔ ان کی ساری پیشہ ورانہ محنتوں کا محور بچے ہی تھے۔ اس لیے وہ اپنے باس کو نہیں جانتے تھے۔ ایک دن باس سکول آئے تو ججالو صاحب نے چوکیدار کو کہا کہ صاحب کے لیے دفتر میں کرسی لگاؤ۔ میں کلاس کا دورانیہ پورا کرکے ہی آؤں گا۔ کلاس کے بعد وہ باس سے ملے تو وہ کافی لال پیلے ہوئے کہ اپنے باس کو نہیں جانتے؟ خطا بندے کی اس میں سرکار کیا تھی؟؟ لیکن خیر یہ ہوئی کہ اس دوران مالو صاحب باس کو رام کر چکے تھے۔ ان کے وسیلے سے ججالو کی جاں بخشی ہوئی۔ اس کے بعد باس جہاں بھی جاتا مالو صاحب کو ساتھ ہی لے کر جاتا۔
ہم نے کم از کم پندرہ سال خود پڑھا اور پندرہ سال پڑھایا مگر مجھ میں مالو سر کی استادی نہ آسکی۔
استاد اور استادی
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
