Tuesday, February 4, 2025
ہومتازہ ترینرجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بےدخل کرنے کا فیصلہ

رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بےدخل کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد:رجسٹرڈ شدہ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بے دخل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ انہیں آہستہ آہستہ افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے حکومت نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کرنے اور آہستہ آہستہ انہیں ان کے ملک واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
حکام کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی عوامی اعلان کیے بغیر اس منصوبے پر عمل درآمد کریں۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے متعدد اجلاسوں میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی تھی، وزیراعظم آفس کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ایک ملاقات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔
منتقلی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغان شہریوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا، اس کے بعد انہیں غیر قانونی اور غیر دستاویزی پناہ گزینوں کے ساتھ واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا، اے سی سی نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو جاری کردہ شناختی دستاویز ہے۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق اے سی سی پاکستان میں قیام کے دوران افغانوں کو عارضی قانونی حیثیت دیتا ہے، تاہم وفاقی حکومت اس مدت کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے کہ اے سی سی کس مدت کے لیے کارآمد رہے گا۔
قانونی طور پر پاکستان میں کہیں بھی رہنے کی اجازت کے حامل پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) رکھنے والے افغان شہریوں کو منصوبے کے دوسرے مرحلے میں وطن واپس بھیجا جائے گا۔
انہیں اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا لیکن انہیں فوری طور پر ملک بدر نہیں کیا جائے گا، کابینہ نے پی او آر رکھنے والے افغانوں کو جون تک ملک میں رہنے کی اجازت دی ہے۔
پی او آر اور اے سی سی کے ساتھ پاکستان میں مقیم افغانوں کی مجموعی تعداد کا تخمینہ بالترتیب 13 لاکھ اور 7 لاکھ ہے۔
دریں اثنا، تیسرے ممالک میں آباد کاری کے منتظر افغانوں کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کر دیا جائے گا۔

وزارت خارجہ سفارت خانوں اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ بازآبادکاری کے عمل کو تیز کیا جا سکے، جو افغان کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہو سکے انہیں بھی واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
دوبارہ آبادکاری اور سابق فوجیوں کے سرکردہ گروپ AfghanEvac# کے بانی شان وان ڈیور کے مطابق 10 سے 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں ویزے یا امریکا میں دوبارہ آبادکاری کے منتظر ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ان افغانوں کی کتنی تعداد اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہتی ہے، تاہم انہیں جڑواں شہروں سے باہر منتقل کرنے کے فیصلے سے پناہ گزینوں کے لیے لاجسٹک مسائل پیدا ہونے کی توقع ہے، جن میں سے بہت سوں کو اسلام آباد میں غیر ملکی مشنوں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔
کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کے منتظر افغان شہریوں میں سے بہت سے وفاقی دارالحکومت میں لینگویج سینٹرز میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔
وزارت داخلہ منتقلی اور ملک بدری کے منصوبوں کی قیادت کرے گی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں آئی بی اور آئی ایس آئی ان پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گی۔
پاکستان نے 2023 میں لاکھوں افغانوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، جن کے بارے میں حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 5 ہزار 991 افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے افغانوں کی جبری وطن واپسی پر تنقید کی ہے اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کررکھی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے درخواست کی آخری سماعت 7 جنوری کو کی تھی۔
سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین بشمول پی او آر یا اے سی سی رکھنے والوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور انہیں گرفتار یا ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
تاہم گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں آئی او ایم نے کہا تھا کہ دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں اسلام آباد میں سیکڑوں افغان شہریوں کو گرفتار اور حراست میں لیا گیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔