بیجنگ : امریکہ نے فینٹینیل کے بہانے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر ٹیرف میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ یہ غلط اقدام ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی ، چین اور امریکہ کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون میں خلل اور امریکی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب کرے گا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ تجارتی جنگوں کے نتائج کو دیکھتےہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دراصل امریکی عوام پر “کھپت ٹیکس” لگانے کا ایک اور دور ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈبلیو ٹی او میں مقدمہ دائر کرے گا اور اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری جوابی اقدامات کرے گا۔
درحقیقت، چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں انسداد منشیات کی سخت ترین پالیسیاں ہیں اور 2019 میں چین نے فینٹینیل جیسے مادوں کی باقاعدہ فہرست کا اعلان بھی کیا تھا ۔ چین یہ اقدام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن اور دیگر منشیات کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے مطابق، امریکہ نے ستمبر 2019 کے بعد سے چین سے برآمد فینٹینیل سے متعلق کوئی مادہ ضبط نہیں کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ واضح ہے کہ امریکہ فینٹینیل کے نام نہاد مسئلے کو بہانہ بنا کر اپنے خفیہ مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے صرف دس دنوں کے اندر 1977 کے “بین الاقوامی ہنگامی معاشی اختیارات ایکٹ” کا سہارا لیتے ہوئے معمول کی تحقیقاتی کارروائیوں کو نظر انداز کیا اور فینٹینیل کے مسئلے کو ٹیرف کے دباؤ کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس کا مقصد عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قانونی فریم ورک میں شامل “موسٹ فیورڈ نیشن ٹریٹمنٹ” اور” شیڈول کمٹمنٹس ” جیسی بنیادی ذمہ داریوں سے بچنا، WTO کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجارتی تحفظ پسندی کو آگے بڑھانا، اور دوسرے ممالک سے پیسے وصول کر کے اپنے معاشی دباؤ کو کم کرنا اور داخلی تنازعات سے توجہ ہٹانا ہے ۔
عالمی سطح پر، محصولات میں اضافے کی امریکہ کی یکطرفہ پالیسی نے دیگر تجارتی اراکین کی شدید ناراضی ، حتیٰ کہ جوابی کارروائیوں کو جنم دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری فکرمند ہے کہ اگر ممالک انتقام اور جوابی انتقام کے اس چکر میں پھنس گئے تو اس سے عالمی تجارتی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، جو عالمی سپلائی چین کے استحکام کو متاثر کر سکتا ہے اور عالمی معاشی ترقی کو سست کر سکتا ہے۔ عالمی بینک نے جنوری کے وسط میں خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ 10 فیصد کا جامع محصول عائد کرتا ہے اور تجارتی شراکت دار جوابی محصولات کا سہارا لیتے ہیں تو 2025 میں عالمی معاشی نمو 0.3 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
تجارتی جنگ اور محصولات کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ اندرونی مسائل کو حل کے کے بجائے بیرونی علاج کا سہارا لینا اور دوسروں پر الزامات عائد کرنا امریکہ کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ امید ہے کہ امریکہ اپنے فینٹینیل جیسے مسائل کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے گا ، ان کا حل تلاش کرے گا اور انہیں بہانہ بنا کر دوسرے ممالک کو محصولات کے ذریعے دھمکانے کا راستہ ترک کرے گا ۔ امریکہ کو بنیادی معاشی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے یکطرفہ محصولات کے غلط اقدامات کو ختم کرنا چاہیے اور چین-امریکہ تعلقات کو ذمہ دارانہ طریقے سے استوار کرنا چاہیے، تاکہ دونوں ممالک کے عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مثبت کردار ادا کیا جا سکے کیوں کہ چین اور امریکہ کے درمیان اتحاد دونوں کے لیے فائدہ مند ہے، جبکہ تصادم دونوں سمیت دنیا بھر کے لئے نقصان دہ ہے۔تاریخ ہمیں یہ سکھا چکی ہے اور مستقبل بھی یہی ثابت کرے گا ۔