Saturday, January 11, 2025
ہومبریکنگ نیوزغیر قانونی آئی این جی اوز کی سرگرمیاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے خطرہ ہیں: محمد امین

غیر قانونی آئی این جی اوز کی سرگرمیاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے خطرہ ہیں: محمد امین

اسلام آباد (آئی پی ایس ) فیئر ٹریڈ ان ٹوبیکو کے چیئرمین محمد امین نے وزارت داخلہ کی جانب سے دو بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (آئی این جی اوز)، کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز اور وائٹل سٹریٹجیز، کی کارروائیاں روکنے کے فیصلے کو سراہا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں بلومبرگ فانڈیشن کی خیرات پر کام کر رہی تھیں۔ وزارت کا یہ اقدام ان نام نہاد صحت عامہ کے اداروں کو بے نقاب کرتا ہے جو پاکستانی قوانین کی خلاف ورزیوں، مالی بدعنوانی اور قومی اقتصادی خودمختاری کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھیں۔

محمد امین نے کہا، “یہ تنظیمیں، جو صحت عامہ کے حمایتی ہونے کا دعوی کرتی ہیں، کرپشن کے بدترین معاملات میں ملوث رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، ڈونرز کی خیرات کو اپنے ہی پسندیدہ ساتھیوں کے ذریعے سے خردبرد کیا گیا، جن میں کچھ مقامی این جی اوز، جعلی پالیسی تھنک ٹینکس، اور یہاں تک کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی سے مبینہ طور پر کام کرنے والی ایک نام نہاد تنظیم شامل ہیں۔ ایسے اقدامات ان کے مقاصد اور پاکستانی قوانین کی پاسداری پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔”

وزارت داخلہ کی ہدایت نے نہ صرف ان آئی این جی اوز کی مزید کارروائیوں پر پابندی لگا دی بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے ان کے بینک اکانٹس بھی منجمد کروا دیے۔ یہ فیصلہ کن اقدام قانون کی حکمرانی کو قائم رکھنے اور پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔

“یہ آئی این جی اوز وزارت داخلہ، اقتصادی امور ڈویژن یا سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی رجسٹریشن یا اجازت کے بغیر دیدہ دلیری سے کام کرتی رہیں۔ ان خلاف ورزیوں کے باوجود، انہوں نے وفاقی اور صوبائی اداروں میں داخل ہو کر پالیسیاں متاثر کرنے کی کوششیں کیں اور مشکوک میڈیا بیانیہ کو رقوم فراہم کیں۔ ان اداروں نے اہم مسائل جیسے کہ غیر قانونی تمباکو تجارت کو حل کیا جائے پر کبھی بھی بات نہ کی” محمد امین نے کہا۔

فیئر ٹریڈ ان ٹوبیکو کے چیئرمین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان آئی این جی اوز کی وفاقی اور صوبائی اداروں میں رسائی کی جامع تحقیقات کرے۔ “ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ تنظیمیں ہیلتھ سروسز اکیڈمی اور ٹوبیکو کنٹرول سیل جیسے اداروں کے ساتھ کس طرح تعاون کرنے میں کامیاب ہوئیں، اور ان کے مقامی ساتھیوں کو ضروری قانونی اجازت کے بغیر کام کرنے کی اجازت کیوں دی گئی،” امین نے زور دیا۔

انہوں نے مزید اپیل کی کہ حکومت ان آئی این جی اوز اور ان کے مقامی سہولتکاروں کے کردار کو جانچے، جو ممکنہ طور پر ٹیکس چوری میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ “یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ یہ تنظیمیں جائز تمباکو صنعت کو نشانہ بناتی رہیں، جس نے مالی سال 2023-24 کے دوران 291 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جبکہ ٹیکس چوری کرنے والی غیر قانونی تمباکو مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹریوں پر خاموش رہیں۔ یہ رویہ ان کے مقاصد پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے،” امین نے کہا۔

محمد امین نے ایسی سرگرمیوں کے وسیع تر اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ “غیر رجسٹرڈ آئی این جی اوز کو بغیر روک ٹوک کام کرنے دینا نہ صرف ہمارے حکومتی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک خطرناک پیغام دیتا ہے۔ یہ ملک میں انتہائی ضروری غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتا ہے،” انہوں نے کہا۔

امین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سخت قوانین نافذ کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی تنظیم نظام کا استحصال نہ کر سکے۔ “ہمیں شفافیت اور جوابدہی کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ اپنے قومی معاشی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات قابل تعریف ہیں، لیکن ہمیں مزید آگے بڑھنا ہوگا تاکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری اور حکومتی نظام بیرونی مداخلت کے خلاف مضبوط رہیں،” انہوں نے کہا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔