تہران (آئی پی ایس )ایرانی پاس دارانِ انقلاب کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کو نئی زمینی حقیقتوں کے ساتھ جینا ہوگا۔ دوسری طرف شام میں اپوزیشن کے مسلح دھڑوں کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے عوام پر مظالم ڈھانے والوں سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔پاس دارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ایران کو بدلے ہوئے حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے جینا ہے۔ ہم نے شام کے حالات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
ایران کی سرکاری خبر ایجنسی ارنا کے مطابق جنرل حسین سلامی نے کہا کہ حالات کے مطابق حکمتِ عملی تبدیل کی جانی چاہیے۔ ہم تبدیل ہوئے بغیر پرانے حربوں سے کسی بھی علاقائی اور عالمی مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ایران طویل مدت سے اسد فیملی کا حلیف رہا ہے۔ اس فیملی نے شام پر پانچ عشروں تک حکومت کی۔ یہ اقتدار گزشتہ ہفتے اس وقت ختم ہوا جب اپوزیشن کے مسلح دھڑوں نے دارالحکومت دمشق پر دھاوا بولا اور صدر بشارالاسد کو بھاگ کر روس میں پناہ لینا پڑی۔
شام کی قیادت نے اسرائیل پر دبا بڑھانے کے حوالے سے ایران کی بھرپور مدد کی ہے، بالخصوص لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے ہاتھ مضبوط کرنے کے معاملے میں۔ ایران نے اسرائیل پر دبا بڑھانے کے لیے لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کے علاوہ یمن میں حوثی ملیشیا اور شرق میں چھوٹے شیعہ گروپوں کو خاصی چابک دستی اور مہارت سے استعمال کیا۔
ایران نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی شام میں ہوا ہے اس کی ذمہ داری امریکا اور اسرائیل پر عائد ہوتی ہے، یہ سب کچھ انہیں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے گزشتہ روز تہران میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اور اسرائیل کی منصوبہ سازی نے شام کا یہ حال کیا۔
پاس دارانِ انقلاب کے سربراہ نے خبردار کیا کہ شام کے حالات کا سہارا لے کر خطے کے کسی بھی ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس وقت شمالی شام میں ترک فوج موجود ہے جبکہ جنوبی شام میں اسرائیلی فوج نے اپنے دستے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے تحت قائم کردہ بفر زون میں میں بھیجے ہیں۔ شام میں امریکا کے فوجی دستے بھی ہیں جو کردوں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
2011 میں شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران تہران اور دمشق کے تعلقات بامِ عروج پر پہنچے۔ اس دوران پاس دارانِ انقلاب نے بشار انتظامیہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے فوجی مشیر بھی دمشق بھیجے۔