تحریر :حمیرا الیاس
@humma_g
عید، تہوار ہے خوشیوں کا، ملنے ملانے کا اور معاشرت رویوں کو اعتدال پر لانے کا۔ عید الفطر پر ہماری مصروفیات مختلف ہوتیں اور عوام کو بالعموم پارکس اور مالزوغیرہ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سیکیورٹی، پارکنگ اور ذاتی شخصی آزادی میں حکومت کی طرف سے یقین دہانی چاہئے ہوتی۔ عیدالاضحی پر ان سب کے ساتھ ساتھ گندگی کی صفائی کے لئے بھی حکومتی اقدامات کا انتظار رہتا۔
ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی کو پر آسائش اور سہل بنانے کے لئے کوشاں رہتا اور اس کے لئے ہر ممکنہ ذرائع استعمال کئے جاتے۔ من حیث القوم اسوقت ہمارا وتیرہ یہ بن چکا ہے کہ ہم ہر چیز کی ذمہ داری خود پر سے اتار کر دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کرتے۔ عیدین پر ہم یہ چاہتے کہ ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے لیکن سوسائٹی کے تمام فیکٹرز ہمارے اردگرد ہماری آسائشیں مکمل کرنے کے لئے برسر پیکار ہوجائیں۔
ہماری معاشرتی ذمہ داریوں میں صرف سہولیات کے لئے شور مچانا نہیں ہے۔ ہمیں اسلام میں جو سکھایا گیا وہ مکمل معاشرتی نظام جس میں ہر ایک کے لئے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہوتے۔ لیکن ہم بالعموم صرف حقوق کاواویلا کرتے جبکہ اپنے فرائض سے بے بہرہ رہتے۔ عیدین پر جتناحق ہمارا ہے کہ ہمیں آرام اور سہولت ملے اتنا ہی دوسروں کا بھی ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، ہم اپنے نصف ایمان کی بھی حفاظت نہیں کرپاتے۔ ہم اپنے نصف ایمان کی حفاظت بھی دوسروں کے ذمہ ڈال کر لعنت ملامت کررہے ہوتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کے بعد خصوصی طور پر حکومت پر تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا، جیسے ہماری پھیلایا گندگی کی صفائی صرف حکومت کا کام ہے۔ جبکہ الطہور نصف الایمان ہر مسلمان کا کام ہے۔
جیسے جیسے عید نزدیک آنے لگتی ہر گھر میں جانور نظر آنے لگتا۔ ہم جانور تو گھر لے آتے لیکن اس کی صفائی کے لئے مناسب انتظام نہیں کرتے۔ جانور کو چارہ کھلا کر باقی ماندہ ڈنٹھل گلیوں کی زینت نظر آتے۔ گھروں سے باہر اگر جانور باندھے گئے یوں تو گلی سے گزرنے والوں کے پاس بس ایک آپشن ہوتی کہ اپنا بچاؤ خود کریں۔
عید گزرنے کے بعد چار سے پانچ دن تک مسلسل حکومتی اہلکار ہمارا پھیلایا کچرا سمیٹنے میں لگے رہتے، کیا کبھی ہمیں یہ سوچ آتی کہ اس تہوار پر ان لوگوں کابھی حق ہے۔ شہر میں جس جگہ آلائشوں کے لئے کلیکشن سنٹر بنا ہوتا وہاں عید کے دن رات آٹھ بجے تک آلائشیں جمع ہوتیں اور رات دس بجے تک سب گڑھے کھود کر دبا دی جاتیں جو درست طریقہ ہے ان آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا۔ لیکن ہماری معاشرتی ذمہ داریاں ہم حکومت پر ڈال کر خود پر چیز سے عہدہ برآ ہو جاتے۔
جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی ویسے ویسے وہ تمام گڑھے جو ارد گردخالی پلاٹس میں کھودے جاتے اور ان میں آلائشیں دفن کی جاتیں، رجحان نہیں رہا۔ ہم بس خاکروب کا انتظار کرتے کہ وہ آئے اور آلائشیں لے جائےاور ہم اجتماعی طور کچھ ایسا انتظام بھی نہیں کرتے کی اپنے شہریوں گلی محلوں کو صاف رکھنے کے لئے خود شہر سے باہر ایک جگہ مختص کرکے گڑھے کھود دیں اور خود ہی ان گڑھوں میں آلائشیں ڈال دیں، انہیں مٹی سے پر کر دیا جائے۔
اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت خود کچھ زمین مختص کردے اس کام کے لئے اور لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس کام کو سرانجام دیں۔
اور اس سب سے زیادہ آسان ہے کہ تمام جانوروں کے ذبیحہ کے لئے خاص سنٹرز بنا دیے جائیں جہاں لوگ قربانی کرکے گوشت لے جائیں اور سرکاری مشینری وہیں ایک ہی جگہ سے سب کچرااٹھا کر جلد اور سہولت سے یہ کام مکمل کردیں۔
اجتماعی طور پراگر یہ کام کریں تو بہت جلد یہ سب سمٹ جائے، ماحول متعفن بھی نہ ہو اور ہم حکومت کوبرا بھلا کہتے ہوئے دکھائی بھی نہ دیں مگر یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم انفرادیت سے اجتماعیت کی سوچ کی طرف جائیں۔ یہ معاشرہ ہم سب کا ہے،تو اس کی صفائی ستھرائی بھی ہمارا کام ہے۔
عید، حکومت اور ہماری ذمہ داری
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔