Monday, July 8, 2024
ہومپاکستانایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دوں گا جو خلاف قانون ہو، نجکاری کا عمل شفاف ہوگا، نائب وزیر اعظم

ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دوں گا جو خلاف قانون ہو، نجکاری کا عمل شفاف ہوگا، نائب وزیر اعظم

اسلام آباد(آئی پی ایس)نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دوں گا جو خلاف قانون ہو، نجکاری کا عمل شفاف ہوگا۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر علی ظفر نے جو سوال اٹھائے وہ اہم ہیں اور وزرا نے اس کا جواب دیا ہے، نجکاری کا عمل شفاف ہوگا، کابینہ کی نجکاری کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے میں ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دوں گا جو خلاف قانون ہوں کیونکہ جو عمل ہے جب وہ مکمل ہوجائے گا تو یہ کابینہ کمیٹی کے پاس آئے گا اور اس کا پوسٹ مارٹم ہوگا اور پھر یہ کابینہ میں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کا عمل ہمارا فرض اور اتحادیوں کا فرض ہے، پھر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا، علی ظفر نے 800 ارب ڈالر اور اسٹیل ملز کی بات کی، اس ایوان میں ان دونوں کے حوالے سے بات ہونی چاہیے، سیکڑوں ارب روپوں کا خسارہ ہوچکا ہے کیونکہ اسٹیل ملز کی نجکاری نہیں کی گئی تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ اس پر گائیڈ کریں، اس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ میں اس بات کا خیر مقدم کروں گا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس معاملے پر تحقیقات کی جائے۔
اسحاق ڈار نے مزید بتایا کہ غزہ پر حکومت کا واضح مؤقف موجود ہے، ہر فورم پر پاکستان غزہ میں ہونے والی بربریت پر آواز اٹھا رہا ہے، اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ ہونا چاہیے، کل آستانہ میں وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ کو مکمل طور پر سپورٹ کیا، ہم نے غزہ کے طالب علموں کو پاکستان کے میڈیکل کالجز میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔

قبل ازیں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ نجکاری کے بغیر کوئی راستہ نہیں اداروں کو ٹھیک کرنے کا۔
وفاقی وزیر نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ قانون بننے سے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات ہوئے تھے، بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے اس حکومت میں کبھی نجکاری کا معاملہ پیش نہیں ہوا، ہمیں یقین ہے کہ نجکاری کے بغیر کوئی راستہ نہیں اداروں کو ٹھیک کرنے کا، ابھی ہم اس کا فریم ورک بنانے کے پروسس میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک قانون ہے نیپرا کا اس کے تحت ڈسٹریبیوشن کمپنی اپنے اثاثوں کا استعمال کسی اور مقصد کے لیے نہیں کرسکتی سوائے بجلی فراہم کرنے کے،

قبل ازیں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان نے فلسطین کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا اور وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو جواب دیا جائے اور اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، اس ساری صورتحال میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ 1967 کی جو سرحد ہے فلسطین کو اس کے تھت تسلیم کیا جائے جس کا دارالحکومت القدس ہو، فلسطین میں امدادی سرگرمیوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1997 کے سروسز مینوئل کے تحت اشتہارا دیے جاتے ہیں مگر ایک پالیسی آئی تھی 2021 میں جس میں 2022 میں ترمیم کی گئی تھی، تو الیکٹرانک میڈیا کے لیے کوئی پیمانہ نہیں جس سے جانا جاسکے کہ کس کو کتنے اشتہارات ملے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کا اپنا سسٹم ہے ریٹنگ کا اس کے تحت فریکوئنسی طے کی جاتی ہے، اور ریٹس طے کیے جاتے ہیں، ایک ریٹس کمیٹی ہے جو طے کرتی ہے کہ کس چینل کو کس فریکوئنسی سے اشتہار دینا ہے اور جس ریٹ پر اشتہار دینا ہے اور اس وقت کسی بھی ٹی وی چینلز کے اشتہارات بند نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک کا ریٹنگ کا سسٹم اپنی جگہ موجود ہے اور نیوز پیپر میں آڈٹ بیورو آف سرکیولیشن ہے جو اس کو دیکھتا ہے، پچھلے 5 سال میں اخبارات کو 9 ارب کے اشتہارات جبکہ ٹی وی کو 6 ارب کے اشتہارات دی گئیں۔

عطا تارڑ نے کہا کہ بجٹ میں نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی لگائی گئی تھی مگر ہم نے نیوز پیپر ایسو سی ایشن کے مطالبے پر اس کو ختم کردیا ہے۔

گورننس اینڈ آپریشنز ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور
بعد ازاں وفاقی وزیر قانون نے ریاستی ملکیتی ادارے گورننس اینڈ آپریشنز ترمیمی بل منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کردیا، پی ٹی آئی کی طرف سے بل کی مخالفت کی گئی۔

اعظم نذیر تارڑ نے بل سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اداروں میں جو ڈائریکٹرز کچھ نہیں کر رہے ان کو ہٹانے کے لیے یہ بل ہے، اداروں میں بیٹھے افراد کوئی قابلیت نہیں، کام نہیں کرتے ہیں، بل میں گڈ گورننس کے حوالے سے ترمیم ہیں۔

اسی کے ساتھ گورننس اینڈ آپریشنز ترمیمی بل ایوان نے کثرت رائے منظور کرلیا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ جو بل آیا ہے اس کے پیچھے مقصد کوئی اور ہے، بورڈ آف ڈائریکٹرز کی معیاد 3 سال تک محفوظ ہے، کسی وجہ پر انہیں نکالا جاسکتا ہے، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ بل قائمہ کمیٹی سے منظور ہوچکا ہے، علی ظفر کا کہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، باس بل کے بعد جو حکومت آئے گی وہ گزشتہ حکومت کے بی او جی تبدیل کردے گی، اب یہ کچھ اداروں کو بیچ رہے ہیں جس کے لیے بل لایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کام کررہے ہیں ان کی جاب سیکیورٹی ہونی چاہیے، بورڈ آف گورنرز کے پاس تین سال کا وقت ہوتا ہے ، اس سے پہلے ہٹانے کے لیے شوکاز ہونا چاہیے، کارگردگی پر اگر ہٹانا ہے تو شواہد تو ہونے چاہیے۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔