Tuesday, July 9, 2024
ہومپاکستانٹربیونلز تشکیل کا معاملہ: لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل

ٹربیونلز تشکیل کا معاملہ: لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل


اسلام آباد:سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 26 اپریل کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں لکھوایا کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہوگا، الیکشن کمشین کے جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کیے جاتے ہیں، مشاورت شفاف انداز میں ہونی چاہیے، جیسے ہی چیف جسٹس کی تقرری کا عمل مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے،
حکم نامے کے مطابق آئندہ سماعت تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔
ٹربیونلز تشکیل کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے چیف جسٹس پاکستان پر اعتراض اٹھا دیا، وکیل پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ہم اپنا اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، کیس کو کسی اور بینچ میں بھیجا جائے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس بینچ میں نہ بیٹھیں، یہ کیس کسی دوسرے بینچ کو بھیجا جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اعتراض سن لیا ہے اب آپ تشریف رکھیں، اس وقت الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا سے سے استفسار کیا کہ ہم نے آپ سے پہلی سماعت پر پوچھ لیا تھا کہ کوئی اعتراض ہے ؟ آپ نے جواب دیا تھاکہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، کیوں نا نیاز اللہ نیازی کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیں؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اعتراض نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کے لیے یہاں بیٹھے ہیں؟ بینچ میں نے تشکیل نہیں دیا، کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے۔
چیف جسٹس اور بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھانے پر عدالت برہم ہوگئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت ہوگیا ،معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں گے، پہلے روز اعتراض اٹھانے والے کو فریق بنتے وقت کسی پر اعتراض نہیں تھا، بہت عدالتی اسیکنڈالائزیشن ہوگئی، ہم ایسے رویے پر کارروائی کا کہیں گے، پہلے روز 2 رکنی بینچ میں میں شامل تھا، تب اعتراض نہیں کیا گیا، اعتراض تھا تو پہلے ہی دن اٹھانا چاہیے تھا، آج آکر زبانی بینچ پر اعتراض کردیا۔
بینچ پر اعتراض اٹھاکر ہیڈ لائنز بنوانا چاہتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسٰی
ان کا مزید کہنا تھا کہ بینچ پر اعتراض اٹھاکر ہیڈ لائنز بنوانا چاہتے ہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل نیاز اللہ نیازی سے دریافت کیا کہ آپ بتائیں کیا اعتراض ہے؟ وجہ بتائیں کہ آپ کو کیوں اعتراض ہے، پہلے دن آپ کو اعتراض نہیں تھا؟
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب دو ممبر بینچ تھا تب کیوں اعتراض نہیں کیا؟ عدلیہ کی تذلیل کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، ہم دیکھیں گے کہ ان کے خلاف ایکشن لینا ہے کہ نہیں، یہ بس کیس خراب کرنا چاہتے ہیں، نیاز اللہ نیازی کو جزوی ریلیف بھی ملا اس کے باجود اعتراض کر رہے ہیں۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ نیاز اللہ نیازی جن کے وکیل ہیں انہوں نے فریق بننے کی استدعا کر رکھی ہے، عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کوبھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، عدالت نے ان کی فریق بننے کی استدعا منظور کر لی تھی، عدالت نے گزشتہ حکم نامہ میں دیگر صوبوں میں ٹربیونلز کی تشکیل کا ریکارڈ مانگا تھا۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے؟ کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟ کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ آپ ججز میں سے خود منتخب نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ چیف جسٹس کو ہی علم ہوتا ہے کون کون سے جج دستیاب ہیں، ہو سکتاہے کچھ جج بیرون ملک ہوں، کچھ ذاتی وجوہات پر ٹربیونل میں نہ آنا چاہتے ہوں، الیکشن کمیشن کو کسی جج پر اعتراض تھا تو وجہ بتا سکتا تھا، وجہ بتائی جا سکتی تھی کہ فلاں جج کا بھائی الیکشن لڑ چکا اس لیے یہ ٹربیونل میں نہ ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پینل نہیں مانگ سکتا، کیا اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں بھی پینل مانگے گئے تھے؟ جسٹس قاضٰ فائز عیسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کر سکتا تھا، الیکشن کمیشن اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیوں نہیں کر لیتا؟ بتائیں ابھی مشاورت میں کیا رکاوٹ ہے؟
اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم نے ایک خط لکھا ہے ملاقات کے لیے رجسٹرار ہائی کورٹ کو، ابھی جواب نہیں آیا، جسٹس قاضی فائزئ نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟
بعد ازاں جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر ترمیم منظور ہوجائے تو بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ملاقات پر تیار ہیں یا نہیں؟ جسٹس جمال مدوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کو کہا جاتا کہ کن علاقوں کے لیے ججز درکار ہیں وہ فراہم کر دیتے، ملتان کیلئے جج درکار ہے وہ اس رجسٹری میں پہلے ہی جج موجود ہوگا، کیا لازمی ہے کہ ملتان کے لیے لاہور سے جج جائے جبکہ وہاں پہلے ہی جج موجود ہے؟ پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی اب کیا ججز بھی اچھے برے ہوں گے؟
آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے، عدالت
وکیل نے جواب دیا کہ تمام ججز اچھے ہیں سب کا احترام کرتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے، مزید استفسار کیا کہ ججز تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کب ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کے اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاؤں گا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر مشاورت کریں تو کوئی اعتراض ہے؟ پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اسے چیف جسٹس کے نام مسترد کرنے کا اختیار ہے، اسے مشاورت نہیں کہا جاتا، الیکشن کمیشن کا رویہ جوڈیشل سسٹم پر حملہ ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم کسی کو جوڈیشل سسٹم پر حملہ نہیں کرنے دیں گے، الیکشن کمیشن اگر نام مسترد کرے گا تو اس سے قانونی اختیار بھی پوچھیں گے۔
الیکشن کمیشن ہر پٹیشن میں فریق ہے، سب اس کی مرضی سے تو نہیں ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل
وکیل سلمان اکرام راجا نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتا کہ کونسا جج کہاں بیٹھے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 14 فروری کو خط لکھا، انہوں نے کوئی تاخیر نہیں کی، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ آپس میں کچھ طے نہیں کر سکتے، جسٹس عقیل عباسی نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن کیسے چیف جسٹس کے نام مسترد کر سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر پٹیشن میں فریق ہے سب اس کی مرضی سے تو نہیں ہوگا۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جو نام دیے وہ قبول کر لیے گئے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے کیوں مسئلہ بنایا ہوا ہے؟
اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کے نکات سے مکمل متفق ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا پہلا مؤقف درست نہیں تھا؟ کیا متفقہ طور پر ٹربیونلز کو کام جاری رکھنے اور حتمی فیصلہ نہ سنانے کا حکم دے دیں؟
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ٹربیونلز کی تشکیل کا معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت پر چھوڑنے کا عندیہ دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے ٹریبونلز سے متعلق آرڈر پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر معطل ہونے یا نہ ہونے سے دونوں اداروں کی مشاورت پر فرق پڑے گا یا نہیں، ہم آپس میں مشورہ کر کے آتے ہیں۔
پس منظر
واضح رہے کہ 20 جون کو سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے۔14 جون کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل تشکیل کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔
واضح رہے کہ 13 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور اپیل کو کل سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی ہے۔12 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس شہزاد ملک نے 8 ٹربیونلز کی تشکیل کے احکامات جاری کیے تھے۔6 نئے ٹربیونلز کے علاوہ لاہور اور ملتان میں موجودہ ٹربیونل میں کام کرنے والے دو ججوں کو پڑوسی اضلاع اور تحصیلوں کے حلقے دوبارہ تفویض کیے گئے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔