انقرہ(سب نیوز )حال ہی میں ترکیہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے جہاں دنیا بھر کو حیران کیا وہیں، اب ترکیہ کی سیاسی صورتحال بھی بدلنے کے دہانے پر دکھائی دے رہی ہے، جہاں صدر اردگان کے مقابلے میں نئی دائیں بازو والی سیاسی جماعت مقبول ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ چند سالوں میں جس طرح پاکستان میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس موومنٹ دیکھی گئی، جہاں الیکشن میں ایک جماعت کے مقابلے میں دیگر جماعتیں تھیں، بالکل اسی طرح کی صورتحال ترکیہ کے انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملی تھی۔
جہاں 6 جماعتی اتحاد سی ایچ پی صدر اردگان کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہا تھا۔جبکہ پرو کردش سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نینشلسٹ IYI پارٹی نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے، جو اردگان کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ اس بار ان اپوزیشن جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور حکمران جماعت کی سیاسی کمزوریوں کا بھی فائدہ اٹھایا ہے۔
تاہم رواں سال ہونے والے ضمنی انتخابات میں اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا ہے، جہاں سیاسی منظر نامے میں سیاسی جماعت نیو ویلفئیر پارٹی نے اتحاد ختم کر دیا، جبکہ صدر اردگان کی معاشی پالسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔اگرچہ اردگان کی پارٹی بھی ایک اسلامی اور کنزرویٹو پارٹی ہے، تاہم نیو ویلفئیر پارٹی اس حوالے سے جارحانہ بیانیہ رکھتی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ مسلم لیگ ن بھی اسلامی پارٹی ہے، لیکن تحریک لبیک پاکستان اس کے مقابلے میں جارحانہ طرز سیاست رکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نیو ویلفئیر پارٹی کے سربراہ محمد علی فاتح ایربکان سابق صدر نجم الدین ایربکان کے صاحبزادے ہیں، سابق صدر ترکیہ کے اسلامی لیڈران میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اردگان کی حکمران جماعت بھی انہیں کئی مواقع پر ترکیہ کا فخر قرار دے چکی ہے۔
صدر اردگان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا تھا، اکرام اماموغولو کو استنبول سے لڑ رہے تھے، جوکہ استنبول کے مئیر بھی رہ چکے ہیں۔اسی طرح انقرہ سے منصور یاواس، جو کہ وکیل بھی ہیں اور مئیر انقرہ کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہی دو مضبوط امیدوار گزشتہ انتخابات میں اردگان کی پارٹی کے مدمقابل لڑتے تو مقابلہ کانٹے دار ہونے کا امکان ہوتا۔
صدر اردگان کی ہار کی بڑی وجہ ماہرین مہنگائی کو قرار دے رہے ہیں، گزشتہ سال ترکیہ کے سینٹرل بینک نے ایک بار پھر سود کے ریٹ کو دگنا بڑھا دیا تھا، یہ وہی وقت تھا جب ترکیہ کے کئی علاقے سیلابی صورتحال سے دوچار تھے، جو مالی اور جانی نقصان کا باعث بنی۔
جبکہ گزشتہ سال آنے والے آفت زدہ زلزلے نے بھی ترکیہ کی معیشت کی کمر توڑ دی تھی، جس میں 50 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں، جس کے بعد ترکیہ میں دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ شروع ہوا تھا، ماہرین کے مطابق سیلاب میں ہلاک ہونے والے 6 ہزار سے زائد شہریوں اور نقصان کے باعث حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی آئی۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی، خوش فہمی، معمولی امیدروار، ناکام سیاسی مہم نے اردگان کی ہار میں اہم کرادار ادا کیا، اس سب میں سابق سیاسی اتحادی (نیو یلفئیر پارٹی) نے بھی راہیں جدا کر لیں اور اتحاد ختم کر کے الیکشن لڑنے کے لیے اپنے امیدوار اتارے، جو کہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہی ہے۔
جبکہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے، کہ قدرتی اور معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل اب ایک نئے چہرے کو دیکھنا چاہتی ہے.لیکن اس سب میں اردگان ایک اسلامی قانون لانے کے لیے پر امید تھے جو کہ فیملی ویلیوز کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے، تاہم اب ان کے پاس اس نئے قانون کو لانے کے لیے اکثریت دکھائی نہیں دے رہیہے۔ اس کے لیے انہیں مذہبی اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت لازمی ہوگی۔
