Monday, December 15, 2025
ہومبریکنگ نیوزالیکشن کیس کا فیصلہ چار تین کا تھا یا دو تین کا؟ دلچسپ عدالتی بحث کا احوال

الیکشن کیس کا فیصلہ چار تین کا تھا یا دو تین کا؟ دلچسپ عدالتی بحث کا احوال

الیکشن کیس کا یکم مارچ کا فیصلہ چارتین کا تھا یا دو تین کا ؟ سپریم کورٹ میں اس نکتے پر دلچسپ بحث ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا تھا 9 رکنی بینچ کے 4 ججوں نے درخواستیں مسترد کیں اورتفصیلی فیصلے دیے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہر نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا اور جسٹس یحیی نے ان سے اتفاق کیا۔پنجاب، کے پی الیکشن التوا کیس: فل کورٹ کی استدعا مسترد نہیں کی،کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس اٹارنی جنرل سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا آپ چار ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ کیا اٹارنی جنرل یہ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے نیا بینچ نہیں بنایا، پچھلا بینچ چلا آرہا ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اکثریتی ججز ازخودنوٹس مسترد کرچکے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نیکہا کہ جن ججز نے کیس سناہی نہیں ان کا فیصلہ ملا کر اکثریتی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر چار ججزکا فیصلہ ہی تسلیم کرلیں تب بھی بینچ تشکیل دینے کا اختیار کیا چیف جسٹس کے سوا کسی اورکو ہے؟ تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانیکا اختیار ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر چار تین کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائیگا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔

چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ تفصیلی اختلافی نوٹس میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ ہی شامل نہیں ہے، بحث کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر پھرسے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جب 4 ججز کا فیصلہ آگیا تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آپ بیٹھ جائیں اور ہمیں اعدادوشمارنہ بتائیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔