کورونا وائرس کی تیسری لہر
حکیم سید محمود احمد سہارنپوری
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر ( ای سی او سی ) کے خصوصی اجلاس نے ملک بھر میں ہفتہ اور اتوار دو روز کے لیے کاروباری سرگرمیوں کو معطل رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزارت تعلیم اور وزارت صحت کے ارباب اختیار نے 11اپریل تک پاکستان نے 9 منتخب شہروں میں تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہیں۔ کورونا وائرس کی تیسری اور خطرناک لہر نے پوری دنیا کو لپٹ میں لیا ہوا ہے سائنس دان اور طبی ماہرین انسداد کورونا کے لیے سرجوڑے بیٹھے ہیں یقینا قدرت اس وباء سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید رحمت وبرکتوں کے دروازے کھولے گی ۔ کورونا کی وجہ سے پاکستان میں بھی کئی شہروں میں لاک ڈائون ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے شعبے متاثر ہوئے ہیں۔جہاں بہت شعبے متاثر ہو رہے ہیں وہاں تعلیم بھی بہت متاثر ہو رہی ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے تعلیم، معیشت اور صحت کو بہت نقصان ہوا ہے۔ کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کی وجہ سے نہ صرف معیشت کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ تمام تعلیمی ادارے بھی بندکر دیے جاتے ہیں اور اس سے تعلیمی سرگرمیاں بھی بند ہو جاتی ہیں ۔جس نے پوری دنیا میں طلباء کی تعلیم اور علم میں ایک بڑا خللل پیدا کر دیا ہے۔
وبائی مرض کی وجہ سے صحت کی طرح تعلیم کے لیے بھی اسٹراٹیجک منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پر اسکولوں کی بندش کے نتیجے میں یہ بات تو واضح ہے کہ اس سے نا صرف بچوں کی تعلیم کا ہرج ہو رہا ہے یا ان کی تعلیم کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ اس سے تعلیم میں تسلسل نا ہونے کی وجہ سے بچے تعلیم سے دور ہو رہے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ خطرہ بچوں کی حاظری کا اور ڈراپ آئوٹ کا ہے۔لوکوں نے بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر کمائی کی طرف لگا دیا ہے۔اور اس طرح پاکستان کے کئی بچے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیںاور اس پاکستان کی ترقی کو بھی خطرہ ہے اس لہر سے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ اسکولوںکی بندش اور لاک ڈائون کے وقفوں کے دوران اس بوجھ میں اھافہ ہونے کا امکان ہے۔پاکستان میں چاروں صوبوں میں ہائی اسکولوں کے ذریعے داخلہ برقرار رکھنے کے لیے لڑکیوںکے وظیفے پروگرام موجود ہیں۔ اسکولوں میںلڑکیوں کی واپسی کو امکانات بڑھانے کے لیے ان میںتوسیع کرنے اور وضیفے بڑھانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ٹیکنالوجی کے زریعے بھی پاکستان کے کئی شہروں میں بھی تعلیم تو دی جا رہی ہے لیکن اس میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ پاکستان کے کئی شہر ایسے بھی ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کم ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے بھی خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
بحران سے نمٹنے اور تسلسل برقرار رکھنے کے انتظام کے لیے نئے اہداف کی تائید کے لیے اپنی انفرادی قوت کو دوبارہ سر زد کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی حاظری دوبارہ شروع کرنے اور ڈراپ آو ٹ کو کم کرنے کے لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ حکمت عملی کا منصوبہ بنائیں اور اساتذہ ، ہیڈ اساتذہ اور اسکول کے رہنمائوں کے کام کی بھی ضرورت ہے ان کو بھی چاہیے کہ وہ اس میں حصہ لیں۔اور بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی احتیاط سے کام لیں وہ بھی اپنا حصہ شامل کریں۔احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ ۔خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وطن عزیز میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسئن لگانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ گلگت وبلتستان اور اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 60برس سے زائد عمر کے افراد کو ترجیحاً ویکسئین لگائی جارہی ہے۔ مسجدوں خانقاہوں اور درگاہوں میں وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے خصوصی دعاوں کے چراغ روشن ہیں اللہ پاک سب کو زمینی مرض اور اس کے اثرات سے مامون دے آمین
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ پاک افواج بھی اپنے طور پر سرگرمی دکھلا رہی ہے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ وزارت صحت کے حکام نے اب تک ہومیوپیتھک ‘ طب ‘ حکمت اور آئیو ویدک طریق علاج سے متعلق شعبوں سے مشترکہ میٹنگ نہیں کی ۔خیال تھا اگر ہیلتھ منسٹری سٹیک ہولڈر کے غیر معمولی اجلاس میں طبی ماہرین کو درپیش چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹاسک دیتی تو پاکستانی معالجین اور محققین حکومت اور قوم کو مایوس نہیں کرتے۔ ہم خود حکمت سے وابستہ حکیم محمد سہارنپوری خانوادے کا حصہ ہیں الحمداللہ پاکستان میں ایسے نامور اور عالمی شہرت کے حامل حکماء کوجانتے ہیں جو ناگہانی صورت حال میں وزارت صحت اور حکومت کی راہنمائی کرسکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ فیصلہ ساز ادارے اور وزارت صحت کے ,,بڑے ،،ملک وقوم کے وسیع مفاد میں اپنی توجہ اس اہم ترین بیٹھک کی طرف مبذول کریں۔سوچ وبچار کے چراغوں سے مسائل ومشکلات سے نکلنے کی سبیل پیدا ہو جائے گی۔ امام علی کا فرمان ہے کہ زمین پر وباء کا دورانیہ دو ماہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ حکمت ودانش سے بھرے اس فرمان سے روشنی لے کر نئی حکمت عملی وضع کی جاسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر احتیاط کریں لیکن ایس او پیز کی اوٹ میں کاروباری سرگرمیاں معطل اور محدود کر دینا دانش مندی نہیں بازار ‘ مارکیٹیں اور کاروبار کی بندش سے لوگوں کی انفرادی زندگی متاثر ہو جائے گی بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے شہری نئی مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ایسے کئی غریب خاندانوں کو جانتے ہیں جنہوں نے غربت اور تنگدستی سے تنگ آکر بچوں کا تعلیم سے تعلق توڑ کر چھوٹے موٹے کام سے منسلک کر دیا ایسے حالات میں اچھے مستقبل کا پتہ نہیں دے رہے۔ ہم یہاں ایسے طبی ماہرین اور دانشوروں جو شبانہ روز خوف پھیلانے کا فریضہ ادا کررہے ہیں ان سے ملتمس ہیں پلیز مصیبت ومشکلات اور مسائل کے حالات میں امید کی باتیں کریں امید کا دامن چھوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا امید اور حوصلہ کی شمع فروزاں کر نے اور روشن رکھنے پر اہل راولپنڈی ممتاز معالج پاکستان گرین ٹاسک کے چیئرمین ڈاکٹر جمال ناصر کے ممنون ہیں ان کی باتیں سن کر ہمت اور دلیری کو ایک نیا رنگ اور زندگیوں کو نئی امنگ مل رہی ہے۔