Monday, June 17, 2024
ہومکالم وبلاگزسیاسی معاشی استحکام لازم وملزوم

سیاسی معاشی استحکام لازم وملزوم

تحریر: مہر عبدالخالق لک

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اس کے مستحکم سیاسی ماحول سے وابستہ ہے ۔ تاریخ شاید ہے کہ مضبوط معیشت والے ممالک میں نہ کوئی انقلابی پیدا ہوا اور نہ ہی انقلاب آیا ۔ گذشتہ کچھ سال بدترین معاشی حالات سے گزرنے کے بعد اب پاکستان کی فضاں میں معیشت کے مثبت اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2024 میں ملک کا کرنٹ اکاونٹ 49کروڑ 10 لاکھ ڈالر سرپلس رہا جبکہ مجموعی طور پر رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاونٹ بیلنس میں20 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا خسارہ رہا ہے جبکہ پچھلے سال اسی مدت میں 3.92 ارب ڈالر کا خسارہ تھا ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے میں کم معاشی نمو کے ساتھ ساتھ بلند افراط زر بھی بڑی وجہ ہے ، برآمدات میں اضافہ بھی اس کا ایک سبب ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جمعہ کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے کرنٹ اکاونٹ میں مارچ 2024 میں 434 ملین ڈالر کے نظرثانی شدہ سرپلس کے مقابلے میں اپریل 2024 کے دوران 491ملین ڈالر کا عارضی سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مالی سال 2024 کے 10 میں ملک کی کل برآمدات 32.1 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں۔ جبکہ اس مدت کے دوران درآمدات 51.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق 10 مہینوں میں برآمدات 10 فیصد بڑھی ہیں جبکہ درآمدات 5 فیصد کم ہوئی ہیں۔10مہینوں میں تجارت خدمات اور آمدن خسارہ 27ارب سے کم ہوکر تقریبا 25ارب ڈالر ہوا ہے۔
یعنی کہ برآمدات 10 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کمی کے بعد 2 ارب 99 کروڑ ڈالر رہی، جبکہ خدمات کی درآمدات میں 70 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ دیکھا گیا، کرنٹ اکاونٹ میں تجارتی خسارہ ایک اہم عنصر ہے۔ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مجموعی کرنٹ اکانٹ خسارہ تقریبا 6 ارب ڈالر ہوسکتا ہے، جبکہ مرکزی بینک کے گورنر نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ خسارہ جی ڈی پی کے 1.5 فیصد کو عبور نہیں کرے گا۔
جبکہ گزشتہ مالی سال 2023 کی آخری دو سہ ماہیوں میں کرنٹ اکانٹ سرپلس رہا تھا، تیسری سہ ماہی میں 57 کروڑ 90 لاکھ جبکہ چوتھی سہ ماہی میں 81 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا سرپلس رہا تھا، یہ حوصلہ افزا رجحان تھا لیکن یہ رواں مالی سال میں جاری نہیں رہ سکا تھا، تاہم نومبر میں اس میں سرپلس دیکھا گیا۔ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں بھی گزشتہ دو ماہ میں بہتری دیکھی گئی ہے اور جو آگے بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک ، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو نے بھی اپنی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔اے ڈی بی، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو کی رپورٹس 3سہ ماہیوں کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایس آئی ایف سی نے معیشت کو درست راہ پر لانے کیلئے پالیسی سطح پر کوششیں کیں۔ماہرین کے مطابق گزشتہ 9 ماہ سے پاکستان کی معیشت درست سمت پر چل رہی ہے، سال 2023 کی نسبت رواں سال پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی، اسی تناسب سے معیشت کا پہیہ چلتا رہا تو 2025 میں مہنگائی کم ہو کر 15 فیصد رہ جائیگی۔ اکنامک آوٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیکی قدر میں استحکام دیکھا گیا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا۔ جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، شرح نمو میں اضافے کا کلیدی محرک زراعت کا شعبہ ہے، مالی سال 2024 میں گندم، چاول، مکئی اور کپاس کی فصلوں میں بمپر اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی۔
اپریل کے شروع میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن رقوم بھیجنے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے اور اس بار یہ ریکارڈ تین ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہی ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی مد میں 21 ارب ڈالر کی رقم آئی ہے جو گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں کے 20.8 ارب ڈالر کی نسبت 0.9 فی صد زیادہ ہے۔
مثبت معاشی اشاریوں اور آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی رقم ملنے کے امکانات روشن ہونے کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس وقت خاصی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔
صرف چند ماہ پہلے پاکستان کے پاس اپنے درآمدی بلز کی ادائیگی کے لیے محض 15 روز کا زرمبادلہ باقی تھا۔ یعنی آسان الفاظ میں اس کے خزانے میں صرف اتنے ہی ڈالرز موجود تھے جس سے وہ بیرون ملک سے منگوائے گئے دو ہفتوں کے سامان کی ادائیگی کر سکتا تھا۔لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے کچھ آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے، مالی نظم وضبط قائم کرنے سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح کم ہے۔ ٹیکس سطح میں کمی کے باوجود ٹیکس وصولی میں کم خلا دیکھا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے وسائل کی گنجائش پیداکرنے کے لیے بہتر ٹیکس پالیسیوں، انتظامی اقدامات کے ساتھ مجموعی سماجی ومعاشی ترقی اور پبلک گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے۔
ترقی پذیر ممالک کو دوضروریات کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ شرح سود پر لیے گئے قرض پہلے سے لیے قرض اتارنے پر خرچ کریں۔ ترقی پذیر ممالک کے سامنے دوسرا انتخاب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی تعلیم، صحت اور سماجی بہتری کے لیے وسائل خرچ کریں۔تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔
موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بہتری کے اثار آنا شروع ہو گئے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیر اعظم اور قائد ن لیگ محمد نواز شریف ملک کی ترقی اور خوشحالی کے معمار ہیں، گزشتہ دور میں عوامی منصوبوں کی بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں،اگر 2017میں نواز شریف کی حکومت نہ ہٹائی جاتی تو پاکستان ترقی کی بلندیوں پر ہوتا،، مسلم لیگ ہی نہیں پاکستان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی، ن لیگ کو اب اپنی سیاسی میراث حاصل کرنی ہے، انشااللہ نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں سب مل کے پاکستان کو دوبارہ اپنے مقام پر لائیں گے، ایک دو سال مشکل سہی، آسودگی کا وقتضرورآئیگا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔