Wednesday, June 26, 2024
ہومکالم وبلاگزوزیراعظم شہبازشریف کا دورہ چین: ''کوہ تائی سے اونچا ہے''

وزیراعظم شہبازشریف کا دورہ چین: ”کوہ تائی سے اونچا ہے”

تحریر:خالد محمود چوہدری
عام مقولہ ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند ،سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے لیکن اب یہ دوستی آئرن برادرز یا فولادی بھائی چارے میں بدل چکی ہے۔ ہمالیہ کے مقابلے میں اب ‘کوہ تائی’ کی مثال دی جاتی ہے جو چین کے پانچ مقدس پہاڑوں میں سے ایک ہے ، اسے چین کے مذہب میں ایک کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ کوہ تائی چین کے صوبہ شانڈونگ کا سب سے اونچا مقام ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ چین کو اس پہاڑ سے تشبیح دی گئی ہے جس سے اس دورے کی چین کی حکومت اور قیادت کی جانب سے اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ مائونٹ تائی 1000 قبل مسیح سے پہلے چائو خاندان کے دورِ حکومت کے دوران ایک مقدس مقام کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف چینی وزیر اعظم لی چیانگ کی دعوت پر 4 سے 8 جون تک عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کررہے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم نے تین نومبر 2022کو چین کا کامیاب دورہ کیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم ہی چین کے دورے نہیںکئے بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے طورپر بھی چین کے متعدد دورے کرچکے ہیں۔ ان ہی دوروں کے دوران ان کی کام میں دلچسپی، تندہی اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے چینی حکومت نے ان منصوبوں کو’ شہباز سپیڈ ‘کا نام دیاجو آج بھی چینی عوام اور حکومت کے ایوانوں میں گونج رہا ہے۔
پاک چین دوستی کی تاریخ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ انتہائی اعتماد کے ساتھ خوش گوار اور دوستانہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی، اقتصادی، دفاعی لحاظ سے بلکہ توانائی سمیت دیگر اہم شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔بلاشبہ، چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔تب ہی شاہ راہِ ریشم سمیت کئی بڑے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے ۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے ‘پاک ،چین اقتصادی راہ داری'(سی پیک) کی شکل میں اس دوستی کو معاشی شراکت داری کے ایک بڑے منصوبے میں بدل دیا جو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نیاسنگ میل بن گیا۔ توقع ہے کہ3218کلو میٹر پر محیط یہ طویل راہ داری عنقریب پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ کراچی سے پشاور تک ریلوے ٹریک بھی بچھایا جائے گا، جس پر 160 کلو میٹر کی رفتار سے ٹرین چلے گی۔33 بلین ڈالرز سے توانائی کے شعبے کو فروغ دے کر 10400 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور یقیناً ان منصوبوں سے سیّاحت کو بے پناہ ترقی ملے گی کہ راہ داری کی تکمیل کے بعد سیّاح نانگا پربت اور کے ٹو کے حسین مناظر سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
وزیرا عظم شہباز شریف کارواں سال وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ چین کا پہلا دورہ ہے۔چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پر عزم ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سدا بہار تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری میں مزید پیش رفت ہو اور نئے دور میں مشترکہ مستقبل کے ساتھ قریبی چین پاکستان تعلقات کے لئے نئے اقدامات کیے جاسکیں وزیراعظم محمد شہباز شریف چین کے صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی چیانگ اور نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سے ملاقات اور بات چیت ان کے شیڈول میں شامل ہے۔ دونوں رہنما چین پاکستان تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر ایک خاکہ تیار کریں گے۔ وزیراعظم بیجنگ کے علاوہ گوانگ ڈونگ اور شانشی کا بھی دورہ کریں گے دونوں ممالک نے اعلی سطح کے قریبی تبادلے کیے، چین پاکستان اقتصادی راہداری پر نتیجہ خیز تعاون کیا اور بین الاقوامی اور علاقائی معاملات میں مضبوط رابطے اور ہم آہنگی کو برقرار رکھا۔بی آر آئی منصوبے سے مجموعی طور پر25 ارب 40 کروڑ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری، 236000 ملازمتیں، 510 کلومیٹر ہائی ویز، اور 886 کلومیٹر کور ٹرانسمیشن نیٹ ورک بچھایا گیا جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں مضبوط ہوئی۔سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت دونوں ممالک اپنے رہنماؤں کی طرف سے طے پانے والے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنائیں گے جس میں ترقیاتی حکمت عملی اور پالیسی کوآرڈینیشن کی مضبوطی شامل ہے جبکہ ”ایم ایل ون” کی اپ گریڈیشن، گوادر بندرگاہ اور قراقرم ہائی وے فیز II کی بحالی سمیت میگا پراجیکٹس پر پیش رفت کو تیز کریں گے۔
اس بدلتی ہوئی دنیا میں تجارتی روابط بڑھانے’ متبادل اور سستے روٹس مہیا کرنے اور اقوام کو بہتر کمیونیکیشن وسائل کے ذریعے جوڑنے کی تزویراتی ضرورت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے؛ چنانچہ نے والے وقت میں سی پیک کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنا آسان ہو چکا ہے
۔ سی پیک کو ہمارے رہنما کئی سال سے معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دیتے آئے ہیں مگر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ سب سے اہم اور کلیدی ذمہ داری تو یہی ہے کہ ملک میں ہم اہنگی اور یکجہتی کی فضا پیدا کی جائے کیونکہ جب تک ملکی سطح پر سیاسی ہم آہنگی نہیں ہو گی’ ہماری معیشت کیلئے گیم چینجنگ صلاحیت کے حامل منصوبوں کا پوٹینشل کھل کر سامنے نہیں آسکتا وسائل استحکام کا نعم البدل نہیں۔ استحکام ہو تو وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں مگر عدم استحکام کی صورتحال میں وسائل بھی کسی کام نہی آسکتے۔ ہمارے سیاسی رہنماوں کو چاہیے کہ وہ آنے والے وقت کی چاپ محسوس کریں اور نگاہِ دوربین پیدا کریں’ یہ ملکی اور قومی مفاد میں بے حد اہم ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ چین میں یقینا سی پیک کے منصوبے زیر غور ائیں گے’ ممکنہ طور پر کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوں گے مگر مشترکہ مفاد کے ان منصوبوں کے شراکت دار کی حیثیت سے ہمیں اپنی کارکردگی کا محاسبہ بھی کرنا چاہیے’ خاص طور پرسی پیک سے منسلک اکنامک زونز کے منصوبے جن سے صنعتی سرگرمیوں کی توقعات وابستہ ہیں’ فی الواقع جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ پاک چین دو طرفہ تجارت کے باب میں ہمیں چین کو اپنی برآمدات بڑھانے کے پہلوو ں کو بھی اجاگر کرنا ہو گا
سی پیک کے دوسرے فیز سے پاکستان کی تین سو کے قریب مزید مصنوعات کو چین میں ڈیوٹی فری دمدات کی لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے یوں لگ بھگ ایک ہزار اقسام کی مصنوعات چین کو ڈیوٹی فری بھیجی جاسکتی ہیں’ مگر اس معاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں بے شمار شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ریڈ ٹیپ ازم ہمارے ہاں کا روایتی مسئلہ رہا ہے مگر اس کیلئے صرف بیورو کریسی یاسرکاری دفاتر کی کارکردگی ہی محل نظر نہیں سیاسی قیادت کی قوتِ فیصلہ بھی اکثر اڑے اجاتی ہے اور اربوں ڈالر کے منصوبے’ دو طرفہ معاہدوں کے باوجود عملی پیش رفت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اس طرزِعمل کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ چینی صنعتوں کی پاکستان منتقلی سی پیک سے جڑی توقعات میں بنیادی طور پر اہم تھی مگر اس سلسلے میں نمایاں پیشرفت ہنوز نظر نہیں اتی’ اسی طرح زراعت کا شعبہ یا سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز میں سرمایہ کاری کی نمایاں گنجائش کے باوجود اس جانب بھی توجہ نہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم کے اس دورہ چین میں ان معاملات اور دوطرفہ دلچسپی اور مفاد کے اس پہلووں پر ترجیحاً غور کیا جائے گا تا کہ ملک میں پیداواری اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو اور مصنوعات سازی کی سرگرمیوں میں اضافے سے پاکستان ایک برآمدی معیشت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دے گا اور عالمی برادری کو دونوں ممالک کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا مضبوط اشارہ بھیجے گا۔ دونوں ممالک کے رہنماوں کے درمیان سٹریٹجک رابطے ہمارے تعلقات کی رہنمائی کرتے ہیں۔ گزشتہ 73 سالوں کے دوران دونوں ممالک کے رہنما قریبی رشتے داروں کی طرح ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ ہمارے قائدین کی رہنمائی میں، چین اور پاکستان کے درمیان مضبوط دوستی وقت کی آزمائش پر پورا اتری۔
٭٭٭٭٭٭

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔