Wednesday, June 26, 2024
ہومکالم وبلاگزچین سے سیکھیں !

چین سے سیکھیں !

تحریر:شہزاد انور فاروقی
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شہباز شریف چار جون سے چین کے دورے پر ہیں۔8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد شہبازشریف کا عوامی جمہوریہ چین کا یہ پہلا دورہ ہے جس پر پاکستان ہی نہیں، ہمسایوں اور دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ پاکستان ڈیفالٹ کی کھائی میں گرنے سے تو بچ گیا، الحمدللہ، لیکن ہمیں معاشی بحالی اور ترقی کی ایک کٹھن کوہ پیمائی درپیش ہے۔ شہبازشریف اپنے قائد اور نومنتخب صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) محمد شہبازشریف کی راہنمائی میں معاشی خودانحصاری کے حصول کو قومی نصب العین بنا چکے ہیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت کی قیادت سے نہایت تیزی سے معاملات کو معاشی شراکت داری میں بدلنے کے بعد اب بیجنگ روانہ ہورہے ہیں۔ اس تناظر میں چین کا یہ دورہ نہایت اہم اور دور رَس اثرات کا حامل ہے۔


پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب بھی آئی، چین کے ساتھ قربتوں اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2013 میں محمد نوازشریف وزیراعظم بنے تو پاکستان میں توانائی اور دہشت گردی جیسے شدید بحران درپیش تھے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا سورج سوا نیزے پر تھا اور عمومی رائے یہ تھی کہ دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی توانائی کی قلت کا خاتمہ ہی ممکن ہے۔ محمد نوازشریف نے وزارت عظمی سنبھالی تواِن سنگین حالات کا انہوں نے نہایت بہادری اور حکمت سے سامنا کیا۔ تاہم پھر ہم نے دیکھا کہ چین نے سی پیک کی صورت محمد نوازشریف کو تحفہ دیا تھا جس کا اظہار چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی کیا تھا۔

یہ سلسلہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت تک بڑی تیزی سے چلتا رہا اور پاکستان سے دہشت گردی اور توانائی کے بحران ختم ہوئے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل ہوا۔ مہنگائی 3.8 فیصد اور ترقی کی شرح 6.1 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ سٹاک ایکسچینج اس وقت بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی اور عالمی مالیاتی ادارے پیش گوئی کررہے تھے کہ پاکستان میں ترقی کی رفتار اسی سمت پر رہی تو جلد ہی شرح ترقی 10 فیصد کی تاریخی سطح پر پہنچ جائے گی لیکن بعدازاں سیاسی عدم استحکام ہرکامیابی کو اسی طرح کھا گیا جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔


مسلم لیگ (ن) نے باگ اقتدار تھامی ہے تو چین کے ساتھ بھی تعاون کے ایک نئے دور کی صبح طلوع ہونے جارہی ہے۔ چین میں نوازشریف کے لئے جو محبت اور احترام ہے، اسی طرح شہبازشریف کو چین کے دوست اور ‘شہبازسپیڈ’ کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے آمدہ دورہ کے حوالے سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ معاشی تعاون کے معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخطوں کی توقع ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے حوالے سے نوید ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں جہاں دونوں آئرن برادرز میں تعاون کا سلسلہ پھر وہیں سے اسی جذبے سے بحال ہوگا جہاں سے بوجوہ ٹوٹ گیا تھا۔ یہ پاکستان کی معاشی بحالی کے لئے خوش خبری سے کم نہیں۔


اس اہم ترین دورے کی اہمیت،اثرات،مضمرات اور امکانات پر بات کرنے سے پہلے ہمیں پاکستان اور چین کی دوستی اور تعلقات کو سمجھنا ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات، ریاستوں کے مابین باہمی مفادات پر مبنی ہوا کرتے ہیں اور گلی محلے کی دوستی اور ہمسائیگی کی طرح یہ بے لوث نہیں ہوتی۔ریاستیں جہاں اپنا فائدہ دیکھتی ہیں،دوستی قائم کرلیتی ہیں اور جب تک مفاد قائم ہے دوستی برقرار رہتی ہے، مفاد ختم دوستی ختم۔
پاکستان اور چین کا معاملہ اس سے سوا ہے اور بڑی حد تک اس اصول سے پرے ہے۔بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دوستی صحیح معنوں میں عوام کے اندر اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ چین کا ذکر آتے ہی ہر پاکستانی کے چہرے پر طمانیت اور فخر چھا جاتا ہے اور دل میں دوطرفہ محبت کے جذبات ابھر آتے ہیں۔چین اور اہل چین سے محبت پاکستانیوں کی گھٹی میں ہے۔پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی،سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے،یہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کی طرف سے چین کی ریاست کو اقوام مسلم میں سب سے پہلے تسلیم کرنے سے لے کر پاکستان کے ہر اہم لمحے اور موڑ پر جہاں چین مضبوطی سے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا وہاں پاکستان بھی علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں چین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دکھ سکھ کا ساتھی رہا۔سر د جنگ میں چین کے امریکہ کے ساتھ روابط کے حوالے سے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور عالمی سیاست کی شکل بدل کر رکھ دی۔


منتخب وزیراعظم میاںمحمد نواز شریف نے فروری 1997 میں چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زیمن اوروزیراعظم لی پنگ سے اہم ملاقاتیں کیں اور پاکستان اور چین کی صدیوں پرانی شاہراہ ریشم کی تجارت کو بنیاد بناتے ہوئے باہمی معاشی ترقی کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔2013 میں میں ایک مرتبہ پھر میاں محمد نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد پاکستانی خارجہ پالیسی میں چین اور مشرق کو خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بھی میاں نواز شریف نے چین کا ایک نجی دورہ کیا۔ ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ کا انقلابی قدم سی پیک کے ذریعے دونوں ممالک میں اقتصادی راہداری کی صورت روبہ عمل ہے۔ جے ایف17 تھنڈر طیارہ ماضی قریب کے پاکستانی تاریخ کے اہم ترین واقعات اور دونوں ممالک کی دوستی کی علامت بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب میں پاکستان ڈیفالٹ کرتے کرتے بچا ہے۔یہ قیامت آچکی ہوتی اگر اپریل 2022 میں آئینی راہ پر چلتے ہوئے ملک کی جمہوری جماعتیں مل کر معاشی تباہی کے راستے پر گامزن حکومت سے نجات کی راہ نہ نکال پاتے۔ دوسری جانب دوست ممالک کے صبر کا پیمانہ بھی سمجھیں چھلک چکا تھا ۔ سابق حکومت کی معاشی بداعمالیوں نے مہنگائی کا سونامی ہی برپا نہ کیا بلکہ عظیم دوست ممالک اور مغربی ممالک کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کے اعتماد کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچائی۔


پاکستان کے آزادی حاصل کرنے کے بعد قائم ہونے والا چین دیکھتے ہی دیکھتے کہیں آگے نکل گیا۔ چین کے کروڑوں عوام غربت سے نجات پاچکے ہیں۔ اللہ ان کو اور ترقی دے ۔اس لئے پاکستان کی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے چین کی ترقی کے ماڈل کو سمجھنا ہوگا۔ خصوصی صنعتی زونز میں نئی صنعتوں کا قیام اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ہماری اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح زراعت میں جدید مشینری کا استعمال، پیدوار میں اضافے کے لئے پانی کے باکفایت استعمال اور جدید ترین طریقوں کا استعمال ہم اپنے دوست چین سے سیکھ سکتے ہیں۔ چین نے آئی ٹی کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ ہم آئی ٹی کے شعبے میں چین کے تجربات سے نہ صرف سیکھ سکتے ہیں بلکہ اُن کی اس شعبے میں نمایاں کامیابیوں کو بھی بروئے کار لاکر اپنے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دے سکتے ہیں اور ملک کو کثیر غیرملکی زرمبادلہ کمانے کے قابل بھی بناسکتے ہیں۔ یہ ہماری برآمدات میں اضافے کا ایک بنیادی تقاضا بھی ہے۔
سلامتی کے تصور میں اب یہ بھی شامل ہے کہ کسی معاشرے اور ریاست میں بسنے والے کتنے خوش حال اور غربت سے آزاد ہیں۔ آج کا پاکستان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی تعلیم، تربیت اور ہنرمندی کا بندوبست کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ کاروبار کے لئے لاگت میں کمی، مسابقت کا ماحول اور عالمی منڈیوں میں ہمارے مال کی رسائی جیسے معاملات ہم سے طویل المدتی اور جامع منصوبہ بندی کے متقاضی ہیں۔ ہم اپنے کامیاب اور ترقی سے ہم کنار ہوئے ہمسائے چین سے سیکھ سکتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔