بھارت دنیا کے نقشے پر موجود ایسا ملک ہے جہاں کی آبادی گنجان ہونے کی وجہ سے ستر فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔حالیہ بین الاقوامی شماریاتی ادارے کی سائو تھ ایشین اسٹڈیز رپورٹ کے مطابق بھارت بڑی تیزی سے غربت، افلاس،غیر معیاری طرز زندگی،اندرونی انتشار و خلفشار،جنسی بے راہ روی اور تشدد کی عمیق دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔رپورٹ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی لہر،بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں ہوشربا اضافہ،انسانی حقوق کی لاتعداد خلاف ورزیوں کے باعث علیحدگی کی تحریوں میں اضافے جیسے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ (سنٹر فار ایشین اسٹڈیز ،ڈاکٹر فارنس جیمز2020)ایک ارب سے زائد آبادی کا ملک بھارت اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتا ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر قابض ہے۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں ،مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں کی نسل کشی،گجرات کے معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے جیسے اندوہناک واقعات سے لبریز ہے ۔پاکستان کے خلاف فالس فلیگ آپریشنز کی داستانیں ہوں یا فضائی جارحیت ہر شر اور فتنے کی کڑیاں پڑوسی ملک سے جا ملتی ہیں۔دوسری طرف انسانی بنیادوں پر پاکستان کا جارح بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھارت کے حوالے کرنا نہ صرف پاکستان کی اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو اجاگر کرتا ہے بلکہ برصغیر کو جنگ کے لپکتے شعلوں سے نکال کر امن کی حسین وادی میں لا کھڑا کرتا ہے جس کی تحسین پوری دنیا نے کی اور پاکستان کے امن پسندی کے اقدام کو بھرپور انداز میں سراہا۔
(Stockholm International Peace Research Institute )
بھارت کے سیاہ کارناموں کی زنجیر کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جارہا ہے جس کی تازہ ترین مثال ایک بھارتی شہری کا ایک افغان لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا اور انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بھارتی شہری نے اس مکروہ فعل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل کردی۔پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے اس کربناک واقعے کو شہ سرخیوں میں جگہ دی اور اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ۔اس واقعے کے مبینہ کردار بھارتی شہری جو سیر وسیاحت کے سلسلے میں افغانستان میں موجود تھاجس کا نام دیپ ڈیسائے ہے اور اس نے ایک پندرہ سالہ افغان لڑکی سے جنسی زیاتی جیسے حرام،قبیح اور مکروہ فعل کا ارتکاب کیا۔یہ واقعہ اٹھائیس دسمبر دوہزار بیس کا ہے جس کے چند دن بعد بھارتی سیاح نے یہ ویڈیو سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر بھی وائرل کردی۔ملزم گرفتار ہوا لیکن یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ اس قبل بھی کئی بھارتی باشندے زنا بالجبر اور نابالغ و بالغ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی میں ملوث پائے گئے اور کئی گرفتار ہوئے اور بعض بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔اس سے قبل ایک بھارتی دفاعی اتاشی بریگیڈئر ایس کے نارائن بھی ایک افغان لڑکی سے جنسی زیادتی کے مرتکب پائے گئے لیکن بعد ازاں انہیں ملک بدر کیا گیا۔ اگر حقائق اور اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائی جائے تو بھارت غیر ملکی سیاح خواتین کیلئے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا ہے ۔بھارت کا دارلحکومت نئی دلی آبروریزی،عصمت دری اور جنسی بے راہ روی کے لحاظ سے عالمی سطح پر سر فہرست شمار ہوتا ہے۔
بھارت میں بچوں سے جنسی استحصال کے قوانین کو بچوں کی حفاظت کی پالیسیوں کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ نے بچوں کو جنسی زیادتیوں سے متعلق بچوں کے خلاف جنسی تحفظ کے بل، 2011 کو ایک قانون کے تحت 22 مئی 2012 کو منظور کیا گیا۔ (”Child Sexual abuse and law”. Child in India. Dr.Asha Bajpa)
ہندوستان دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی آبادی میں شامل ہے ـ 2011 کے مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی آبادی اٹھارہ سال سے کم عمر کے 472 ملین بچوں کی ہے ریاست کے ذریعہ بچوں کے تحفظ کی ضمانت قانون میں تو موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
(”Parliament passes bill to protect children from sexual abuse”. ND TV. 22 May 2012.)
ملاحظہ کریں بھارت کا اپنا قانون کیا کہتا ہے اور اس کے اپنے باشندے ملک میں اور دیار غیر بالخصوص افغانستان میں کیا گل کھلا رہے ہیں۔
ریاست تمام بچوں کو ہر طرح کے تشدد اور بدسلوکی، نقصان، نظرانداز، بدنامی، امتیازی سلوک، محرومی، استحصال سمیت معاشی استحصال اور جنسی استحصال، ترک کاری، علیحدگی، اغوا، فروخت یا کسی بھی مقصد یا کسی بھی شکل میں کسی بھی شکل میں اسمگلنگ سے محفوظ رکھے گی۔، شراب اور مادے کی زیادتی، یا کوئی دوسری سرگرمی جو ان کا غیر مناسب فائدہ اٹھاتی ہے، یا ان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتی ہے یا ان کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہے
بچوں سے جنسی جرائم سے متعلق تحفظ قانون (POCSO)، 2012Protection of Children from Sexual Offences)
سوال یہ ہے کہ اگر قانون موجود ہے اور اس قانون میں ترمیم کے ذریعے اٹھارہ سال سے کم عمر بچے سے زیادتی کی سزا موت اور کم سے کم عمر قید رکھی گئی ہے تو کیا بھارت اپنے ملٹری اتاشی برائے افغانستان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا؟آئیے زرا بھارت کے اپنے پاس کئے گئے قانون پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔
بچوں سے تحفظ برائے جنسی جرائم کے قانون (POCSO)، 2012، کے تحت وضع کردہ قوانین بچوں کو جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی اور فحش نگاری سے بچانے کیلئے
مخصوص ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ایسے جرائم کے مقدمات چلانے کے لئے عدالتیں۔ ایکٹ خصوصی عدالتوں کے ذریعہ ”عدالتی عمل کے ہر مرحلے پر، رپورٹنگ، شواہد کی ریکارڈنگ، تفتیش اور جرائم کی تیز رفتار مقدمے کی سماعت کے لئے بچوں کے دوستانہ طریقہ کار کو شامل کرکے” بچے کی دلچسپی کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پی او سی ایس او کے سیکشن 44 اور پی او سی سی او رولز 6 کے تحت این سی پی سی آر کو ”ایکٹ کے نفاذ کی نگرانی کرنا لازمی ہے۔”
(Protection of Children from Sexual Offences Act (POCSO), No. 32 of 2012, https://indiacode.nic۔)
اب آگے دیکھئے بھارتی لوک سبھا کی قرارداد کے متن کا ایک اہم حصہ جس میں جنسی تشدد کے بارے میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔
ِِ،،معاشرے سے منسلک سب سے بڑا معاشرتی بدنامی یہ ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ کسی بچے کو جسمانی، جنسی یا ذہنی طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ چوٹ، نظرانداز کرنے یا غفلت برتنے والا سلوک، الزام تراشی، زبردستی جنسی محرک اور سرگرمی، ناجائز استحصال اور جنسی استحصال کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی گھروں، اسکولوں، یتیم خانوں، رہائشی دیکھ بھال کی سہولیات، سڑکوں پر، کام کی جگہ پر، جیلوں میں اور نظربند مقامات پر ہوسکتی ہے۔ کسی بھی شکل میں تشدد سے بچے کی مجموعی نشوونما پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے نتیجے میں بچے کی صحت، بقا، ترقی اور )وقار کو حقیقی یا ممکنہ نقصان پہنچتا ہے ۔۔۔۔
(بقیہ تحقیقی و تجزیاتی قسط پیر کو اپ لوڈ کی جائیگی