Wednesday, December 31, 2025
ہومکالم وبلاگزجب ایمان کو یرغمال بنا لیا جائے

جب ایمان کو یرغمال بنا لیا جائے

تحریر: محمد محسن اقبال


زندگی انسان کو عطا کی جانے والی ایک مقدس امانت ہے جو صرف ایک مرتبہ نصیب ہوتی ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ زندگی نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی بے مقصد۔بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جو ایک واضح مقصد، اخلاقی ضابطے اور جواب دہی کے تصور کے ساتھ انسان کو سونپی گئی ہے۔ جب یہ زندگی اللہ کے احکامات کی اطاعت اور حضور اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں گزاری جائے تو یہی زندگی دنیا میں وقار، توازن اور قلبی سکون کا ذریعہ بنتی ہے اور آخرت میں دائمی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ قرآنِ مجید انسانی جان کی حرمت کے بارے میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے’’(سورۃ النساء: 29)
یہ ایک ہی آیت خودکشی کی ہر شکل کو اسلام میں قطعی طور پر حرام قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ کسی بے گناہ جان کے ناحق قتل کی سنگینی کو سورۃ المائدہ میں مزید شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا، اور جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی عطا کی (5:32)


اس اخلاقی کائنات میں خودکش حملے دوہرے جرم کی حیثیت رکھتے ہیں؛ ایک طرف خود اپنی جان لینا اور دوسری طرف بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا۔ احادیثِ نبوی ﷺ اس ممانعت کو غیر مبہم انداز میں مزید مضبوط کرتی ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ نے خبردار فرمایا کہ جو شخص خودکشی کرتا ہے وہ آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا اور اسی عمل کو بار بار دہرانے کے عذاب میں مبتلا رہے گا۔ یہ ارشادات اس حقیقت کو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ خودکشی کو کسی بھی صورت میں شہادت کا درجہ دینا اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔


اسلام شہادت اور خودکشی کے درمیان ایک واضح، اصولی اور ناقابلِ تردید فرق قائم کرتا ہے۔ شہادت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی مومن اللہ کی راہ میں، دین، وطن یا مظلوم انسانوں کے دفاع میں، اپنی جان دینے کا ارادہ کیے بغیر دشمن کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔ اس کے برعکس خودکش حملے سوچے سمجھے عمل ہوتے ہیں جن میں جان بوجھ کر خود کو ہلاک کیا جاتا ہے اور خوف، افراتفری اور تباہی پھیلائی جاتی ہے، جن کا نشانہ عموماً عام شہری بنتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے دوران بھی عورتوں، بچوں اور غیر جنگجوؤں کے قتل سے سختی سے منع فرمایا، جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اسلامی تاریخ میں کہیں بھی خودکش بم دھماکوں کی نہ مثال ملتی ہے اور نہ اجازت۔
اس کے باوجود، جدید دور میں خودکش دہشت گردی ایک ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے، جو زیادہ تر غیر متوازن جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بنتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ایسے اقدامات نہ تو دینی جذبے کا فطری اظہار ہیں اور نہ ہی کسی روحانی وابستگی کا نتیجہ۔ یہ دراصل منظم ذہن سازی، من گھڑت مذہبی تعبیرات اور دشمن عناصر کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہیں، جن کا مقصد ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ کمزور اور حساس افراد کو چن کر انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ کیا جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ان کی اخلاقی خودمختاری سلب کر کے دین کے نام پر تشدد کو جائز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔


حال ہی میں سامنے آنے والا ایک واقعہ اس تلخ حقیقت کی دردناک یاد دہانی ہے، جب سیکیورٹی اداروں نے مبینہ طور پر بلوچستان کی ایک کم عمر لڑکی کو گرفتار کیا جو خودکش حملے کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ شدید نظریاتی دماغ شوئی اور جذباتی استحصال کا شکار رہی۔ یہ واقعہ اس وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس میں خواتین، جو عام طور پر معصومیت اور بے بسی کی علامت سمجھی جاتی ہیں، کو ان کی کمزوریوں، صدمات اور محرومیوں کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لڑکی تشدد کی منصوبہ ساز نہیں تھی بلکہ ایک منظم سازش کی شکار تھی، جس کا مقصد مایوسی کو ہتھیار اور جان کو تباہی کا ذریعہ بنانا تھا۔
نفسیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خودکش حملہ آور عموماً ذہنی مریض نہیں ہوتے۔ انہیں بتدریج تنہائی، مسلسل تلقین اور جذباتی دباؤ کے ذریعے اس نہج پر لایا جاتا ہے جہاں تشدد مقدس اور موت قابلِ فخر بنا دی جاتی ہے۔ خود کش دہشت گردی کی خاطر بھرتی کرنے والے افراد ذاتی دکھ، ناانصافی کے احساس اور شناخت کے بحران کو استعمال کر کے ایک ایسا فکری سانچہ تیار کرتے ہیں جس میں سوال کرنا گناہ اور شک کرنا غداری قرار پاتا ہے۔ یوں فرد کی اپنی سوچ اور اخلاقی حس ایک مسلط شدہ نظریے کے سامنے دم توڑ دیتی ہے۔


اسی لیے ریاست کی ذمہ داری اس ضمن میں محض عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن ناگزیر ہیں، مگر صرف طاقت سے کسی نظریے کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ ریاست کو چاہیے کہ مستند اور معتبر علماء کے ذریعے دینی بیانیے کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں کہ خودکش حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مساجد، تعلیمی ادارے اور میڈیا کو مستقل بنیادوں پر انتہاپسند بیانیے کا علمی اور فکری جواب دینا ہوگا۔


ساتھ ہی ان سماجی و معاشی حالات کا تدارک بھی ضروری ہے جن سے شدت پسند عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ غربت، جہالت، ناانصافی اور مسلسل عدم استحکام ایسے عوامل ہیں جو انتہاپسند سوچ کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔ پائیدار امن کے لیے تعلیم، منصفانہ ترقی اور جواب دہ طرزِ حکمرانی میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ گمراہ ہو جانے والوں کے لیے ڈی ریڈیکلائزیشن اور بحالی کے پروگرام، جن میں نفسیاتی علاج کے ساتھ درست دینی تعلیم شامل ہو، مزید وسعت دی جانی چاہیے تاکہ وہ ناقابلِ واپسی مرحلے تک پہنچنے سے پہلے بچائے جا سکیں۔


دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں مارے جانے یا گرفتار ہونے والوں کے خاندانوں پر بھی خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔ اکثر ان خاندانوں کو پہلے ہی نظریاتی طور پر تیار کر لیا جاتا ہے، جہاں تشدد کو فخر اور نفرت کو وراثت بنا کر منتقل کیا جاتا ہے۔ اگر انہیں نظرانداز کیا گیا تو یہی خاندان مستقبل کی انتہاپسندی کے مراکز بن سکتے ہیں۔ ہمدردانہ مگر محتاط ریاستی حکمتِ عملی، جس میں مشاورت، معاشی معاونت اور اصلاحی دینی تعلیم شامل ہو، اس سلسلے کو توڑنے کے لیے ناگزیر ہے۔


آخر میں یہ بات پوری وضاحت سے کہی جانی چاہیے کہ خودکش حملے نہ تو ایمان کا تقاضا ہیں اور نہ ہی شجاعت کی علامت۔ یہ فریب، مایوسی اور استحصال سے جنم لینے والے جرائم ہیں۔ اسلام زندگی کا محافظ اور قدردان مذہب ہے اور ہر اس نظریے کو مکمل طور پر رد کرتا ہے جو جان کی حرمت کے منافی ہو۔ پاکستان کا ردِعمل بھی اسی توازن پر قائم رہنا چاہیے؛ سلامتی میں مضبوطی، نظریے میں وضاحت، بحالی میں رحم دلی اور حکمرانی میں انصاف، تاکہ زندگی وہی رہے جو اللہ نے اسے بنایا ہے—ایک مقدس امانت، ہتھیار نہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔