Year End Story
ریل گاڑی آج بھی دنیا کی محفوظ ترین، آرام دہ اور سستا ترین سفری سہولت سمجھی جاتی ہے، پاکستان میں لاکھوں افراد روزانہ ایک سے دوسرے شہر کا سفر کرنے کے لیے ریل کے سفر کو ہی ترجیح دیتے ہیں، پاکستان ریلویز کا جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد دوسرا بڑا نیٹ ورک ہے، ملک کے طول و عرض میں 11 ہزار 881 کلومیٹر طویل ٹریک، 500 سے زائد اسٹیشنز اور 68 ہالٹس مسافروں کو بہترین سفری سہولیات کی فراہمی اور سامان کی ترسیل کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سال 2025ء میں ہونے والے حادثات:
پاکستان ریلوے کو اس سال کسی بڑے حادثے کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا البتہ خستہ حال ٹریک، پرانا سگنل سسٹم اور کانٹا کھینچنے کے بوسیدہ نظام کے باعث سال 2025ء میں مسافر اور مال بردار ٹرینوں کے 95 حادثات ہوئے، مسافر ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے کے 46، مال گاڑیوں کے 43 اور کچھ دیگر نوعیت کے حادثات رونما ہوئے، کوئٹہ سے چلنے والی جعفر ایکسپریس ٹرین اور اس کے روٹ پر ریلوے ٹریک کو 8 مرتبہ تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جعفر ایکسپریس ٹرین کو پہلے 11 مارچ اور پھر 18 جون کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں نے کئی بار ریلوے ٹریک کو بموں سے اڑا دیا جس کے باعث ٹرین کی بوگیاں پٹڑی سے اترتی رہیں، اسی طرح مختلف اوقات میں جعفر ایکسپریس ٹرین اور ریلوے ٹریک کو کوئٹہ ڈویژن میں تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا۔
یکم اگست کو لاہور سے راولپنڈی جانے والی ریل کار اسلام آباد ایکسپریس ٹرین کی 6 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جس میں 30 مسافر زخمی ہوئے، 11 ستمبر کو رینالہ خرد کے قریب مال گاڑی کا انجن دوسری مال گاڑی سے ٹکرا گیا، حادثے میں اسسٹنٹ ٹرین ڈرائیور جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا۔
17 اگست کو لودھراں کے قریب لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین عوام ایکسپریس کی 6 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ 29 اگست کو پڈعیدن کے قریب مال گاڑی کی 9 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جبکہ 21 مئی کو کراچی سے لاہور آنے والی ٹرین شالیمار ایکسپریس کو ساہیاں والا دارالاحسان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ ٹرین اَن مینڈ لیول کراسنگ پر اینٹوں والے ٹرالے سے ٹکرانے پر ٹرین کی تمام 15 کوچز پٹڑی سے اتر گئیں۔
تیس مئی کو رحمان بابا ایکسپریس ٹرین اَن مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرالے سے ٹکرا گئی، یکم جون کو پاکستان ایکسپریس کو مبارک پور کے قریب حادثہ پیش آیا اور ٹرین کی ڈائننگ کار کے نیچے سے پوری ٹرالی نکل گئی تاہم ٹرین بڑے حادثے سے محفوظ رہی۔
چودہ جون کو ٹرینوں کے تین واقعات ہوئے۔ پشاور جانے والی ٹرین خوشحال خان خٹک ٹرین کی 6 بوگیاں کند کوٹ کے مقام پر پٹڑی سے اتر گئیں۔ اسی روز علامہ اقبال ایکسپریس ٹرین بھی بڑے حادثے سے بچ گئی، ٹرین کے چلتے چلتے بریک بلاک میں خرابی پیدا ہوگئی۔
تھل ایکسپریس ٹرین کار سے ٹکرا گئی، 18 جون کو جعفر ایکسپریس کو جیکب آباد کے قریب تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا۔ ریلوے ٹریک کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا گیا اور ٹرین کی 5 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
سال 2025ء میں ریلوے کی ریکارڈ آمدن:
پاکستان ریلوے نے سابق حکومت کے دور میں بند ہونے والی متعدد ٹرینوں کو دوبارہ بحال کیا اور مسافروں کی سہولت کے لیے نئی بوگیاں بھی لگائیں، مختلف روٹس پر چلنے والی لوکل ٹرینوں کی بوگیوں میں بھی اضافہ کیا جس سے مسافروں کا ریلوے پر اعتماد بڑھا اور مختلف لوکل روٹس کو پہلے سے زیادہ منافع بخش بنانے میں مدد ملی، وزیرِ ریلوے محمد حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت میں محکمہ ریلوے نے مسافروں کا اعتماد جیتا اور ریکارٖڈ 93 ارب روپے سے زائد سے زائد ریونیو حاصل کیا، محکمہ ریلوے کے مطابق مالی سال 2025-26 کی پہلی ششماہی میں تقریباً 50 ارب روپے کی ریکارڈ آمدن ہوئی ہے۔
اسٹیشنز کی تزئین و آرائش اور ریلوے کا مستقبل:
محکمہ ریلوے حکام کے مطابق ٹرینوں کے حادثات میں کمی لانے کے لیے سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کو ڈائریکٹوریٹ میں تبدیل کیا گیا ہے جس سے حادثات کی شرح 0.09 سے 0.04 فیصد پر آ گئی ہے، کراچی تا روہڑی ٹریک بنانے کے منصوبہ پر پیش رفت ہونے جا رہی ہے، سال 2025 میں راولپنڈی کو ملک کا پہلا اسمارٹ اسٹیشن بنا دیا گیا جہاں کیمرے اور جدید سکیورٹی سسٹم نصب ہے۔ 2026ء میں دیگر بڑے اسٹیشن بھی اسمارٹ بننے جا رہے ہیں اور ٹرینوں میں بھی کیمرے لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ریلوے نے صرف 8 ماہ میں شالیمار، پاک بزنس، لاثانی، فیض احمد فیض سمیت 8 ٹرینوں کے ریکس کو اَپ گریڈ کیا۔
لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد اسٹیشنز کو بھی اپ گریڈ کرکے ریلوے کو ڈیجیٹائز کر دیا ہے، اسی طرح وزارت کا تمام کام ای فائلنگ پر منتقل کر دیا ہے، اب تمام بڑے اسٹیشنوں پر اے ٹی ایم، ڈی وی ایم اور پی او ایس مشینیں موجود ہیں۔ ملازمین کی حاضری بھی کمپیوٹرائزڈ کر دی گئی ہے، بغیر دفتر آئے کوئی تنخواہ نہیں لے سکتا، اس سب موثر اقدامات کے بعد پاکستان کی نظریں ایم ایل ون منصوبے کی تکمیل پر ہیں جس کے تحت پاکستان ریلوے جلد ہی جدید ترین نظام سے منسلک ہو جائے گی، اگرچہ معیار چین یا امریکی ریلوے جیسا تو نہیں البتہ یہ علاقائی طور پر کافی ہو گا جو بڑی بندرگاہوں اور صنعتی مراکز کو جوڑنے پر کصوصی توجہ مرکوز کرے گا جس کا مقصد 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک تیز رفتار اور بہتر مال برداری کے لیے نقل و حرکت کی بہتر سہولت میسر ہو سکے۔
