اسلام آبادص(آئی پی ایس )بانی تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی نے توشہ خانہ ٹو کیس میں اپنی سزاں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں الگ الگ اپیلیں دائر کر دیں۔خصوصی عدالت نے 20 دسمبر کو اس کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو 17، 17 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ مقدمہ مئی 2021 کے سرکاری دورے کے دوران سعودی ولی عہد کی جانب سے عمران خان کو تحفے میں دیے گئے مہنگے بلغاری جیولری سیٹ کو انتہائی کم قیمت پر خریدنے سے متعلق تھا۔
سماعت کے دوران استغاثہ نے مقف اختیار کیا تھا کہ تحریک انصاف کے بانی نے تقریبا 8 کروڑ روپے مالیت کا زیورات کا سیٹ صرف 29 لاکھ روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھا۔ڈان کو دستیاب اپیلوں کی نقول کے مطابق سزا کو سیاسی بنیادوں پر دیا گیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ مقدمے کا بنیادی مقصد اپیل کنندہ کو مسلسل قید میں رکھنا، ملکی سیاست میں ان کی شرکت روکنا اور ان کے سیاسی کردار و اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔
اپیلوں میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ یہ کیس ابتدا میں قومی احتساب بیورو نے دائر کیا تھا، جسے بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے کو منتقل کر دیا گیا۔اپیل میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے اختیار کیے گئے تفتیشی طریقہ کار کو نظر انداز کیا۔ واضح قانونی رہنمائی اور نظائر کی عدم موجودگی میں زیادہ احتیاط اور گہرے جائزے کی ضرورت تھی تاہم تحقیقاتی ادارے اور ٹرائل کورٹ دونوں نے عجلت میں کارروائی کی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ریکارڈ پر کوئی ایف آئی آر موجود نہیں۔
مزید کہا گیا کہ ایف آئی اے نے تفتیش شروع ہونے کے صرف دو دن کے اندر چالان جمع کرا دیا، جو شفاف اور منصفانہ تفتیش کے لیے ناکافی وقت تھا۔اپیلوں میں مقف اختیار کیا گیا ہے کہ توشہ خانہ ٹو کیس توشہ خانہ سے متعلق چوتھا مقدمہ ہے اور یہ دہری سزا کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایک ہی معاملے پر بار بار فوجداری کارروائی کی گئی۔اپیل کے مطابق نیب نے جان بوجھ کر تحائف کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے پر مقدمہ چلایا جبکہ دیگر تحائف پر کارروائی مخر یا ترک کر دی، جو قانونا ناقابل قبول ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ ون اور ٹو مختلف تحائف سے متعلق تھے، تاہم انہیں ایک ہی مشترکہ مقدمے کے طور پر سنا جانا چاہیے تھا۔اپیل میں مقف اختیار کیا گیا کہ ایک ہی ٹرائل کو متعدد کارروائیوں میں تقسیم کرنے کا مقصد اپیل کنندہ کو مسلسل قید میں رکھنا ہے۔مزید کہا گیا کہ سزا دیتے وقت 2018 کی توشہ خانہ پالیسی کو نظر انداز کیا گیا، جس کے مطابق تمام تحائف رپورٹ کر کے توشہ خانہ میں جمع کرانا لازم ہے۔ اسی پالیسی کی ایک شق کے تحت 30 ہزار روپے سے زائد مالیت کے تحائف مخصوص فیس ادا کر کے اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں۔
