Thursday, December 25, 2025
ہومتازہ ترینبغیر کسی آرڈر کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہے ہیں؟، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

بغیر کسی آرڈر کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہے ہیں؟، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور(سب نیوز)لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کیخلاف دائر مزید 18درخواستیں اعتراضات دور ہونے کے بعد فل بنچ کو بھجوا دیں اور کمیٹیوں کی کارروائیوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے حکمِ امتناعی جاری کر دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے ابوبکر سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کی، درخواست گزاروں کی جانب سے شاہد رانا ایڈووکیٹ سمیت دیگر وکلا پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ کے تحت ٹریبونلز قائم ہونا تھے جنہیں قبضے سے متعلق اختیارات حاصل ہیں تاہم ڈھائی ماہ بعد ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اس دوران کس قانون کے تحت کمیٹیاں قبضے دلواتی رہیں؟۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر سے استفسار کیا کہ اگر معاملہ سول کورٹ میں زیرِ التوا ہو تو ایکٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر متعلقہ عدالت میں درخواست دے گا اور عدالت کیس ٹریبونل کو منتقل کرنے کی پابند ہوگی، کیا اس شق پر عمل ہو رہا ہے؟، چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ بغیر تحریری احکامات کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہے ہیں؟ اگر عدالت بھی بغیر آرڈر کے کچھ کہے تو کیا اسے مان لیا جائے گا؟،انہوں نے سوال کیا کہ کیا ٹریبونلز نے کام شروع کر دیا ہے؟ جبکہ نہ عملہ موجود ہے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ ٹریبونلز کہاں بیٹھیں گے، کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں؟۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ کمیٹیاں قبضہ دلوائیں گی، ایکٹ کے مطابق ٹریبونل کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی قبضے کا حکم دیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب کمیٹی پیرا کو کہتی ہے اور پیرا قبضہ دلواتی ہے تو یہ کس قانون کے تحت ہے؟، درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ڈی سی شیخوپورہ نے زبانی طور پر قبضے کا حکم دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام درخواستوں میں سنگین الزامات ہیں اور عدالت ہر کیس اس لیے دیکھ رہی ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ قانون کیا تھا اور عملا کیا ہو رہا ہے۔دوران سماعت ایک اور درخواست میں بتایا گیا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیرِ سماعت ہونے کے باوجود ڈپٹی کمشنر نے قبضہ کروا دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہائیکورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
سرکاری وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ قواعد ابھی آنا باقی ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر قواعد کے کارروائیاں کیسے ہو سکتی ہیں؟ جب ڈی سی تحریری آرڈر نہیں دے گا تو متاثرہ فریق اسے چیلنج کیسے کریگا؟ عدالت نے قرار دیا کہ قانون نامکمل نہیں ہوتا، یا مکمل ہوتا ہے یا نہیں۔بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کمیٹیوں کی تمام کارروائیوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے تمام کیسز فل بنچ کو بھجوا دیئے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔