Sunday, December 21, 2025
ہومکالم وبلاگزکالمزلاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

تحریر: محمد محسن اقبال
پاکستان کا قیام محض ایک جغرافیائی خطے کا حصول نہیں تھا بلکہ ایک ایسے نظریے کی تکمیل تھا جو امن، اعتدال، انصاف اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد سے پاکستان نے خطے میں ہمیشہ بقائے باہمی، رواداری اور پرامن ہمسائیگی کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش کی۔ اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون مکالمہ، سفارت کاری اور بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری رہا ہے۔ شدید اشتعال انگیزیوں، جنگوں اور مسلسل دباؤ کے باوجود پاکستان نے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اس یقین کے ساتھ کہ جنوبی ایشیا کا استحکام طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ باہمی احترام اور طے شدہ اصولوں کی پاسداری سے ہی ممکن ہے۔
اس کے برعکس، بھارت کا رویہ اکثر تعاون کے بجائے دباؤ، دھونس اور بالا دستی کے رجحان کی عکاسی کرتا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ ایسے اقدامات کرتا آیا ہے جو نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ بنتے ہیں بلکہ بین الاقوامی اصولوں اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی متصادم ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی یہی سوچ زیادہ جارحانہ اور خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔
چند ماہ قبل بھارت کی جانب سے پاکستان کو فوجی مہم جوئی کے ذریعے آزمانے کی کوشش کی گئی، مگر پاکستان کے پُرسکون، ذمہ دار اور بروقت ردِعمل نے ایک ہی دن میں اس مہم کو ناکام بنا دیا۔ یہ ردِعمل کسی جارحیت کا اظہار نہیں بلکہ اپنی خودمختاری اور علاقائی توازن کے تحفظ کی ایک ناگزیر ضرورت تھا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، مگر دفاع کے معاملے میں کسی کمزوری کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ واقعہ بھارت کے لیے ایک واضح سبق ہونا چاہیے تھا کہ طاقت کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی پالیسی ناکام اور نقصان دہ ہے۔
تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ فوجی محاذ پر ناکامی کے بعد بھارت نے ایک زیادہ خطرناک اور دیرپا ہتھیار استعمال کرنے کا راستہ اختیار کیا، یعنی پانی کو بطور دباؤ استعمال کرنا۔ پانی کی جارحیت محض ایک انتظامی یا تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی بقا، معیشت، زراعت اور سماجی استحکام پر براہِ راست حملہ ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے پانی زندگی کی بنیاد ہوتا ہے، اور پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے تو یہ واقعی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس پورے تنازع کی بنیاد 1960ء میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ہے، جو عالمی بینک کی سرپرستی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے ہوا۔ اس معاہدے کو عالمی سطح پر تنازعات کے پرامن حل کی ایک مثالی مثال سمجھا جاتا رہا ہے۔ چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک یہ معاہدہ جنگوں، کشیدگی اور سیاسی اختلافات کے باوجود قائم رہا۔ اس کے تحت سندھ، جہلم اور چناب جیسے مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے، جبکہ بھارت کو راوی، بیاس اور ستلج جیسے مشرقی دریاؤں پر اختیار دیا گیا۔ اس معاہدے کی اصل روح یہ تھی کہ پانی کو کبھی تنازع یا دباؤ کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا۔
آج اسی معاہدے کی روح کو دانستہ طور پر پامال کیا جا رہا ہے۔ جہلم اور چناب کے پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی کمی، ڈیموں اور دیگر منصوبوں کے ذریعے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوششیں، اور معلومات کی شفاف فراہمی سے گریز، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت معاہدے کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی سطح میں اچانک کمی نے زراعت، توانائی اور پینے کے پانی کے ذخائر کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے۔ کروڑوں افراد کا روزگار براہِ راست یا بالواسطہ اس شعبے سے وابستہ ہے۔ گندم، چاول، کپاس اور دیگر اہم فصلیں انہی دریاؤں کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔ اگر پانی کی فراہمی میں طویل خلل پیدا ہوا تو زرخیز زمینیں بنجر ہو سکتی ہیں، دیہی آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے، غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور معاشی عدم استحکام پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایسے اثرات کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے خطے کو متاثر کرتے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ کسی پابند معاہدے کی خلاف ورزی نہ صرف فریقین کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے بلکہ عالمی معاہداتی نظام کو بھی کمزور کرتی ہے۔ اگر سندھ طاس معاہدہ جیسا مستحکم اور طویل المدتی معاہدہ غیر محفوظ ہو جائے تو دنیا کے دیگر معاہدات کی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اس معاملے کو عالمی برادری کے سامنے پوری سنجیدگی سے اٹھایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو اس کے اقدامات سے باز رکھا جائے۔
پاکستان کی خواہش اور ترجیح آج بھی امن ہے۔ اس نے ہمیشہ مکالمے، سفارت کاری اور قانونی راستوں کو اختیار کیا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ قومی بقا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ پانی پاکستان کی زندگی ہے، اور زندگی پر سودے بازی نہیں کی جاتی۔ مئی 2025ء کے واقعات نے ثابت کیا کہ اگر پاکستان کو دیوار سے لگایا گیا تو وہ اپنے بنیادی مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط اور فیصلہ کن ردِعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لہٰذا پاکستان کی قیادت کے لیے لازم ہے کہ عالمی برادری کو دو ٹوک الفاظ میں آگاہ کرے کہ پانی کے ذریعے دباؤ ایک ناقابلِ قبول حد ہے۔ بروقت سفارتی مداخلت، معاہدات کے نفاذ اور عالمی ذمہ داریوں کی پاسداری ناگزیر ہے۔ اگر دنیا نے خاموشی اختیار کی تو یہ خاموشی جارحیت کی حوصلہ افزائی بن جائے گی اور خطہ ایک بڑے تصادم کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
بھارت کو یہ حقیقت سمجھنی ہو گی کہ دریا کسی ریاست کی ملکیت نہیں بلکہ ایک مشترکہ امانت ہیں۔ انہیں سیاسی مقاصد کے لیے یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان دھمکیوں اور الزامات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا، مگر جبر کو قبول کرنا بھی اس کے شایانِ شان نہیں۔ اس کا رویہ وقار، ضبط اور اصول پسندی کا مظہر رہا ہے، مگر اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ کے لیے ہر ضروری قدم اٹھانا اس کا حق ہے۔
نتیجاتا،جنوبی ایشیا کے سامنے دو ہی راستے ہیں؛ یا تو معاہدات کی پاسداری، انصاف اور باہمی احترام کے ذریعے امن کو یقینی بنایا جائے، یا پھر پانی کو ہتھیار بنا کر ایسے نتائج کو دعوت دی جائے جن پر کسی کا اختیار نہیں ہو گا۔ پاکستان کا مؤقف واضح، اصولی اور ذمہ دارانہ ہے۔ وہ امن چاہتا ہے، مگر انصاف کے ساتھ۔ اگر اس کی شہ رگ کو خطرے میں ڈالا گیا تو خاموشی ممکن نہیں رہے گی، اور قومی بقا کے لیے عزم اور اقدام ناگزیر ہو جائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔