Monday, October 20, 2025
ہومکالم وبلاگزکالمزننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان

ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان

ایسل اِلہام
impactchroniclesmedia@outlook.com


بیٹی صرف ایک رشتہ نہیں، ایک امید ہوتی ہے—ایسی امید جو ہر گھر میں روشنی، ہر دل میں نرمی، اور ہر معاشرے میں زندگی کی علامت بن کر جنم لیتی ہے۔ وہ ننھی ہنسی جو صحن میں گونجتی ہے، وہ سوال جو کلاس روم میں اٹھتا ہے، اور وہ خواب جو آنکھوں میں پلتا ہے—یہ سب صرف ایک بچی کی موجودگی نہیں بلکہ ایک قوم کے مستقبل کی جھلک ہوتے ہیں۔

بچیوں کا عالمی دن محض ایک تقویمی تاریخ نہیں بلکہ ایک اجتماعی آئینہ ہے، جو ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور طالبات کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بچیاں صرف خاندان کی عزت یا محبت کا مظہر نہیں بلکہ وہ مکمل انسان ہیں، جنہیں تعلیم، تحفظ، صحت، اظہار اور ترقی کے مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں صنفی امتیاز، غربت، اور سماجی جبر کی جڑیں گہری ہیں، وہاں بچیوں کی زندگی اکثر خاموش جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں بچیاں آج بھی اسکول جانے کے بجائے پانی بھرنے، کھیتوں میں کام کرنے یا کم عمری میں شادی کے دباؤ کا سامنا کرتی ہیں۔ شہری بچیاں جنسی ہراسانی، آن لائن بدسلوکی، اور تعلیمی اداروں میں صنفی تعصب کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ان کے خواب اکثر گھر کی چار دیواری میں دفن ہو جاتے ہیں، اور ان کی آوازیں سماجی شور میں دب جاتی ہیں۔

یہ دن ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ان خاموش کہانیوں کو سنیں، ان زخموں کو پہچانیں، اور ان خوابوں کو جینے کا موقع دیں۔ جب ایک بچی تعلیم حاصل کرتی ہے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی سنوارتی ہے بلکہ پورے خاندان، برادری اور ملک کو بہتر مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔ مگر یہ خواب تبھی حقیقت بنے گا جب ہم قانون سازی، بجٹ ترجیحات، میڈیا بیانیے اور سماجی رویوں میں بچیوں کو مرکز میں رکھیں۔ ہمیں صرف بچیوں کے لیے بات نہیں کرنی، بلکہ انہیں خود بولنے دینا ہے—اسکولوں، نیوز رومز، عدالتوں اور اسمبلیوں میں ہمیں ان کی نمائندگی کو علامتی نہیں بلکہ عملی بنانا ہوگا۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں بچیوں کی تعلیم، صحت اور تحفظ کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے، مگر ان کی رفتار، شفافیت اور اثر پذیری پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں صنفی مساوات کا ذکر ضرور ہے، مگر دیہی اسکولوں کی حالت، خواتین اساتذہ کی کمی، اور نصاب میں صنفی حساسیت کی غیر موجودگی اس دعوے کو کمزور کرتی ہے۔

بچیوں کے عالمی دن پر ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ میڈیا کس طرح بچیوں کی کہانیوں کو پیش کرتا ہے۔ کیا ہم صرف مظلومیت دکھا رہے ہیں یا ان کی مزاحمت، کامیابی اور قیادت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں؟ ماحولیاتی تبدیلی، غربت، اور تنازعات جیسے مسائل میں بچیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، مگر ان کی آواز سب سے کم سنائی دیتی ہے۔ صحافت کو چاہیے کہ وہ بچیوں کی زندگیوں کو صرف خبر نہیں بلکہ بیانیہ بنائے—ایسا بیانیہ جو معاشرے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہمیں ایسے رپورٹرز، اساتذہ، وکلاء اور قانون سازوں کی ضرورت ہے جو بچیوں کے حقوق کو ذاتی، پیشہ ورانہ اور قومی ترجیح سمجھیں۔

اس دن کی اصل روح تبھی زندہ ہوگی جب ہم بچیوں کو صرف تحفظ نہیں بلکہ اختیار دیں گے۔ جب ہم ان کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جب ہم ان کی تعلیم کو خیرات نہیں بلکہ حق سمجھیں گے۔ جب ہم ان کی آواز کو دبانے کے بجائے سنیں گے، سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ بچیوں کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم نے آج ان کی زندگیوں میں روشنی نہ بھری، تو کل کا سماج اندھیرے میں ہوگا۔ یہ دن ہمیں صرف جذباتی نہیں بلکہ عملی طور پر متحرک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اور یہ دعوت ہر اس شخص کے لیے ہے جو انصاف، برابری اور انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔