Friday, October 24, 2025
ہومتازہ ترینغزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق: حماس اور اسرائیل اب کیا کریں گے؟

غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق: حماس اور اسرائیل اب کیا کریں گے؟

دو سال کی خونریز جنگ، ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع اور غزہ کی تباہی کے بعد بالآخر مشرقِ وسطیٰ میں امن کی ایک بڑی کرن نمودار ہوئی ہے۔ اسرائیل اور حماس نے امریکا اور قطر کی ثالثی میں ”غزہ امن منصوبے“ کے پہلے مرحلے پر باضابطہ دستخط کر دیے ہیں۔ یہ اتفاق قطر، مصر اور ترکیہ کی سفارتی کوششوں سے ممکن ہوا ہے اور اس نے پورے خطے میں ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں اعلان کیا کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی ہوگی، تمام یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی، جبکہ اسرائیلی فوج طے شدہ حد تک غزہ سے انخلا کرے گی۔
ان کے مطابق، یہ اقدام ایک ”مضبوط، پائیدار اور دائمی امن“ کی طرف پہلا قدم ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔ انہوں نے قطر، مصر اور ترکیہ کے کردار کو سراہا، جنہوں نے مذاکراتی عمل میں کلیدی کردار ادا کیا۔
معاہدے کے تحت اقدامات
معاہدے کے مطابق، حماس اپنے قبضے میں موجود 20 زندہ اور مارے جاچکے اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کرے گی جبکہ اس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کے بیشتر علاقوں سے جزوی انخلا کرے گی، جس کے بعد فوجی دستے ”یلو لائن“ تک واپس جائیں گے، یعنی وہ حد جہاں سے مزید کارروائی نہیں ہوگی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق، دستوں کو نئی تعیناتی لائنوں پر منتقل کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فوج مکمل طور پر نہیں جائے گی بلکہ نگرانی اور انٹیلیجنس آپریشن جاری رہیں گے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جا سکے۔

حماس کا ردِعمل اور شرائط
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ غزہ میں جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلا، انسانی امداد کی فراہمی اور قیدیوں کے تبادلے پر مشتمل ہے۔

حماس کے ترجمان نے کہا، ’ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں، مگر اسرائیل کو معاہدے کی ہر شرط پر عمل کرنا ہوگا۔‘
حماس نے امریکا اور ثالث ممالک سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو کسی بھی تاخیر یا وعدہ خلافی سے روکیں۔
حماس کے رہنماؤں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اپنے عوام کے حقِ خودارادیت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی صدر ٹرمپ سے رابطے میں معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔

اسرائیلی سفیر یحیئیل لیٹر کے مطابق، اسرائیلی سلامتی کابینہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی فہرست کی منظوری دے رہی ہے، جس کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو جائے گا۔

عالمی ردِعمل اور عوامی جذبات
غزہ اور خان یونس میں امن معاہدے کی خبر پھیلتے ہی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ فضا میں خوشی کے نعرے گونجنے لگے۔ فلسطینی پرچموں کے ساتھ بچے اور نوجوان جشن مناتے دکھائی دیے۔
عالمی سطح پر اس معاہدے کو ٹرمپ انتظامیہ کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

ابھی کیا غیر واضح ہے؟
اگرچہ یہ امن معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے، مگر کئی سوالات ابھی باقی ہیں، جیسے کہ غزہ کا آئندہ انتظام کون سنبھالے گا؟ حماس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ اور فلسطینی اتھارٹی کا کردار کب شروع ہوگا؟
صدر ٹرمپ کے مجوزہ ”بورڈ آف پیس“ کے تحت غزہ کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا جس کی سربراہی ٹرمپ خود کریں گے اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی اس کا حصہ ہوں گے۔

چیلنجز اور خطرات
مجوزہ غزہ امن معاہدہ اگرچہ امید کی کرن ہے، مگر چیلنجز کم نہیں۔ حماس نے اسرائیل کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ غیر مسلح ہو جائے۔ اختلاف یہ بھی ہے کہ اسرائیلی فوجی انخلا کب اور کیسے مکمل ہو گا۔
عرب ممالک چاہتے ہیں کہ اس امن منصوبے کا اختتام فلسطینی ریاست کے قیام پر ہو، مگر نیتن یاہو اب بھی اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں۔
نیتن یاہو کی پالیسیوں کے باعث اسرائیل میں ان کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔