تحریر :ظہیر حیدر جعفری
دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی یا زوال کی اصل بنیاد تعلیم ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم علم کو اپنی ترجیح بنا لے تو وہ ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھتی ہے، لیکن اگر کوئی قوم تعلیم کو پسِ پشت ڈال دے تو دولت، زمینیں اور طاقت سب کچھ ہونے کے باوجود وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ جو قومیں تعلیمی میدان میں آگے ہیں وہی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ یورپ، امریکہ اور خاص طور پر آج کا چین اس کی روشن مثال ہیں۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی تعلیم کی اہمیت کو سب سے نمایاں کر دیا تھا۔ قرآنِ مجید کا پہلا حکم ہی “اقرأ” یعنی “پڑھ” ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر پر سب سے پہلی وحی تعلیم کے بارے میں نازل فرمائی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی علم اور تعلیم پر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ ﷺ نے تعلیم کو ہمیشہ اولین حیثیت دی۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر قیدیوں کو یہ شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ اس عمل نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان کبھی تعلیم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” اس ارشاد میں بھی اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ تعلیم صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ گویا تعلیم اسلام کے نزدیک کسی کے لیے اختیاری چیز نہیں بلکہ ایک لازمی فریضہ ہے
نبی کریم ﷺ کا ایک اور مشہور فرمان ہے: “علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔” اس فرمان نے تعلیم کی اہمیت کو نہایت دلکش انداز میں واضح کیا ہے۔ چین اُس وقت عرب دنیا سے بہت دور تھا۔ سفر کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، نہ ریل تھی اور نہ ہوائی جہاز۔ سفر کرنا مشقت بھرا اور مہینوں کا کام ہوتا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مثال دے کر بتایا کہ اگر علم حاصل کرنے کے لیے اتنی بڑی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ قربانی چھوٹی ہے، کیونکہ علم کی قدر و قیمت سب سے بڑھ کر ہے۔
بعض محدثین نے اس حدیث کو سند کے لحاظ سے کمزور کہا ہے، لیکن اس کے پیغام میں کوئی کمزوری نہیں۔ اس میں ایک سبق ہے کہ علم کے حصول کے لیے مشکلات برداشت کرنا لازمی ہے۔ اگر دور دراز کے علاقوں تک جانا پڑے، اجنبی زبان سیکھنی پڑے یا محنت و قربانی دینا پڑے، تب بھی علم کا سفر جاری رہنا چاہیے۔
اس زمانے میں چین ایک ایسی تہذیب تھی جو ہنر، صنعت اور دستکاری میں دنیا بھر میں مشہور تھی۔ کاغذ سازی، چھاپہ خانے، طب اور فلکیات جیسے علوم میں چینی لوگ نمایاں تھے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے “چین” کا نام لے کر گویا یہ اشارہ دیا کہ مسلمان علم کے لیے دنیا کے کونے کونے تک جائیں۔
یہ حقیقت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ جو قوم علم کے راستے کو اپناتی ہے، وہ آگے بڑھتی ہے۔ اور جو قوم علم سے منہ موڑ لیتی ہے، وہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ چین نے اس فرمان کی روح کو اپنایا اور آج علم کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔