واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کے تحت امریکی محکمہ دفاع کو اس کا پرانا نام “محکمہ جنگ” واپس دے دیا گیا ہے ۔ یہ اقدام بظاہر ایک سادہ سی نام کی تبدیلی ہے، لیکن درحقیقت یہ امریکہ کی جانب سے دنیا کو بھیجا گیا ایک انتہائی اثرانگیز “سیاسی بم” ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ “محکمہ جنگ” کا یہ لفظ امریکی علیحدگی پسندی کا اعلان بن گیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ عالمگیریت کی پابندیوں سے خود کو آزاد کرتے ہوئے، کھلے عام حقیقت پسندانہ اور تنہائی پسندانہ سیاست کی طرف لوٹ رہا ہے۔ 1789 میں قائم ہونے والا امریکی “محکمہ جنگ” دراصل محکمہ دفاع کا پیش رو تھا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس نام کی بحالی امریکی سیاسی حلقوں میں “عالمگیریت” کی حمایت کرنے والی قوتوں کی مکمل صفائی کی مہم کا تسلسل ہے۔
وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ “عالمگیریت پسند لوگ” جنگ کے بعد یورپ اور ایشیا پیسیفک کے معاملات میں مداخلت کے شوقین رہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ پچھلی ایک چوتھائی صدی میں “کوئی جنگ نہیں جیت سکا” اور یہی امریکہ کے موجودہ داخلی و خارجی مسائل کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس محکمہ کا نام تبدیل کر کے “محکمہ دفاع” رکھا گیا، جو امریکہ کی ناکامی کی علامت بن گیا۔ ٹرمپ کی سیاسی بیان بازی واقعی چھپی ہوئی نہیں ہے: “امریکہ فرسٹ ” کا نعرہ پہلے ہی دنیا کو ایک بڑا جھٹکا دے چکا ہے ۔ اس بار لوگ امریکہ کی بے رحمی اور خودغرضی پر اس لئے حیران ہیں کہ اب امریکہ اسے چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ۔ اب “محکمہ دفاع” کے “محکمہ جنگ” میں تبدیل ہونے سے، آخری پردے کا گرنا بھی واضح ہو چکا ہے ۔ 1789 میں قائم ہونے والا “محکمہ جنگ” دوسری جنگ عظیم کے بعد جب “محکمہ دفاع” میں تبدیل کیا گیا تو اس کا بنیادی مقصد جنگ کے بعد امریکی عالمی اجارہ داری نظام کے بیانیے میں تبدیلی تھی، تاکہ بظاہر متانت والے لفظ “محکمہ دفاع” کے ذریعے اجتماعی سلامتی اور جمہوریت کی ترویج جیسے بیانیوں کے پردے میں فوجی مداخلت اور عالمی فوجی بالادستی کو چھپایا جا سکے۔ اب ٹرمپ ٹیم کے ذریعے پرانے نام کی بحالی، واضح طور پر موجودہ عالمی کثیر الطرفہ سلامتی تعاون کے رجحان کے برعکس ہے۔ یہ اقدام دنیا کے لئے یہ اعلان ہے کہ امریکہ تنازعات کو بات چیت اور تعاون کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں کو ترک کر چکا ہے، اور صرف طاقت کے زور پر یقین رکھتا ہے۔ امریکہ کا اخلاقی برتری کے مقام کو دانستہ طور پر ترک کرنا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ہی بین الاقوامی نظم کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کوسوو سے لے کر عراق اور افغانستان تک، سب امریکہ کی “جنگی سوچ” کا نتیجہ ہیں ، نا کہ “دفاعی سوچ” کا۔ “محکمہ جنگ” کے نام کی بحالی صرف امریکہ کی “فوجی اولیت ” اور اجارہ داری کی سوچ پر انحصار کو مزید مضبوط کرے گی، اور زوال کی راہ پر اسے اور آگے لے جائے گی۔ نام کی تبدیلی کے پیچھے، اکیسیوں صدی کے رجحان سے متعلق ایک نظریاتی مقابلہ کارفرما ہے۔
پینٹاگون کا دوبارہ “محکمہ جنگ” کا اعلان در اصل امریکہ کا دنیا کے سامنے اپنے نظریے کا کھلا اعلان ہے ۔یوں یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زبانی طور پر قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظم بھی اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، کیوں کہ طاقت پر مبنی سوچ کو اب مزید چھپانے کاارادہ نہیں رہا۔تو کیا یہ سلطنت کے غروب کی صورتحال میں مایوسی سے بھری ایک آخری کوشش ہے؟ یا پھر دنیا کے لئے نئے دور کے آغاز کی علامت ؟ انسانیت کی تقدیر کےچوراہے پر، تاریخ خون اور آگ سے سرد مگر واضح جواب لکھ رہی ہے۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جنگ پسندی آخرکار اپنے ہی برے انجام تک لے جاتی ہے ۔ بین الاقوامی برادری کو امریکہ کے اس خطرناک اقدام پرپوری چوکس رہنا چاہیے، اور امریکہ کی اجارہ داری اور فوجی مہم جوئی کے خلاف مشترکہ مزاحمت کرنی چاہیے، تاکہ عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھا جا سکے۔