تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی)
@SiddiquiMarwah
اور ایسا کیوں نہ ہو ؟ خالق کائنات نے بھی تو اپنے پیغام کے لئے خط کتابت ہی استعمال کیا ہے اور قلم کی قسم کھائی ہے۔
نبوت ، رسالت ، کتاب ، رسول یہ تمام الفاظ و اصطلاحات مترادف و متقارب المعنی ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے آخری اور حتمی زریعہ محطوطہ و مکتوبہ صحیفہ مبارکہ کتاب عظیم قرآن مجید کو بنایا ہے ۔ تار ، فون ، ریڈیو ، ٹیپ ، ٹی وی ، ویڈیو ، ٹیلیکس ، فیکس ، ای میل اور کمپیوٹر کو نہیں۔
بے شک چودہ سوسال پہلے یہ ذرائع انسان کی دسترس میں نہ تھے مگر کیا ﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے بھی باہر تھے ؟ نعوذباﷲ
ﷲ تعالیٰ کے اس اختیار میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ پیغام رسانی کا وہی ذریعہ دلیل اور حجت بن سکتا ہے جو ہر دور میں انسانوں کے لئے کار آمد اور سہل الحصول ہو ، غریب ، امیر ، شہری ، دیہاتی ، جنگلی صحرائی ، پہاڑی ہر ایک کی پہنچ میں ہو کم خرچ ہو ، جس سے استفادہ و آسان ہو ، نقل و حمل مشکل نہ ہو ، براہ راست استعمال کیا جاسکے ، کسی محرک قوت کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔
میں نئی اختراعات کی مخالف نہیں ہوں ، میں تو صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں ان کا اس طرح عادی اورغلام نہیں ہوجانا چاہیئے کہ بلاضرورت بھی استعمال کرنے لگیں اور کبھی دسترس میں نہ ہوں توہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔ اب مثلا جتنی ایجادات کے نام لئے گئے ہیں ان میں سے کون سی چیز ہے جو ان شرائط پر پوری اترتی ہو؟ آج بھی دنیا میں ٹیلی فون کی سہولت کتنے فی صد انسانوں کو حاصل ہوگی ؟ فہرست میں درج باقی اشیاء جہاں بجلی کی سہولت نہیں ہے یا کسی وجہ سے برقی ردعمل ہوجائے تو ایک بےکار بوجھ پھران کے مصارف کہاں ہر شخص برداشت کرسکتا ہے ؟ ٹیلی فون آج بھی دنیا کے بہت سے خطوں میں عنقا نہیں تو عجوبہ ضرور ہے مثلا ایجادات کے بادشاہ جاپان اور چین کے درمیان ارکان میانمار کو لے لیجیئے ، وہاں آج بھی لاکھوں لوگوں نے ٹیلی فون نہیں دیکھا استعمال تو دور کی بات ہے۔ باقی آلات پر بھی اس پر قیاس کرلیجیئے ، مگر خطوط خواہ بذریعہ ڈاک ہو دستی ہو آج بھی پیغام رسانی و تبادلہ اخبار و احوال ومعلومات کا تنہا اور اکلوتا ذریعہ ہے ۔
مگر افسوس کے ساتھ یہ اعتراف ضروری ہے کہ ہم نے من حیث القوم اس ذریعہ سے جہاں بھی ہیں کماحقہ کبھی کبھی فائدہ اُٹھایا ۔ اس میں ہماری سستی غفَلت اور بے شعوری کو بڑا دخل ہے۔ آج طباعت و اشاعت کی دنیا نے حیرت انگیزترقی کرلی ہے یہی حال لکھنے لکھانے کی اشیاء کا ہے ۔ ذرا آج سے ایک صدی پہلے کی دنیا کا تصور کریں ، فاؤنٹین پن ایجاد ہوا تھا نہ بال پوائنٹ ، کاغذ یقینا تھے مگر پتانہیں کیسے تھے ؟ وقت کے مجدد کو بادشاہ وقت نے (بادشاہ بھی معمولی نہیں ، عظیم ہندوستان کا جس کا باپ بھی خود کو اکبر اعظم ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکبر جل جلالہ ، ظل ﷲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نعوذباﷲ معلوم نہیں کیا کچھ کہلواتا تھا ) ناراض ہوکر قلعہ گوالیار میں قید کردیا تھا ۔ ایسے بے سروسامانی کے عالم میں بھی وہ مرد حق چُپ کا اور خاموش بیٹھا نہیں رہا ، اپنا فرض ، دعوت و تبلیغ اور انداز و تلقین کا ادا کرتا رہا ۔ زبان سے ممکن نہیں تو قلم سے خطوط کے ذریعہ سہی ۔ ان ہی کے لئے اقبال رح نے کہا تھا
گردن نہ جھکی جس کی جہاں گیر کے آگے
جس کے نقش گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہ ہاں
ﷲ نے بروقت کیا جس کو خبر دار
حضرت شیخ الہند رحمت ﷲ علیہ کا تذکرہ پہلے ہوچکا اور نہ جانے کتنے بزرگانِ دین اولیاء کرام ہیں ، جن کی ایسی ہی باہمت پرعزم مساعی و قربانی کی بدولت پرعظیم ہندو پاک و اطراف و اکناف میں دین اسلام زندہ وباقی رہا جو برما ( میانمار ) تک شامل تھا ۔
