نیو یارک (سب نیوز )امریکی دانشور اور تجزیہ کار الیکشن سے قبل جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے، وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ٹرمپ کے انتخابی اعلانات سے غیرقانونی تارکین وطن اور دوسری رنگ دار نسلیں پہلے ہی خوف زدہ تھیں، سیاہ فاموں کو بھیجے جانے والے پیغامات نے منقسم معاشرے پر چڑھا ملمع بھی اتار دیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ دھمکیوں کو کم تر سطح کا خطرہ سمجھا جارہا ہے۔
ایف بی آئی یا دیگر تحقیقاتی اداروں کا بیان اسی نسل پرستانہ رویے کو مہمیز کرتا ہے کہ کوئی بات نہیں۔ پیغام وصول کرنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ امریکی معاشرہ ابھی تک دور غلامی میں ہے، ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے تھے، سفید فام برتر اور سیاہ فام کمتر ہیں۔
امریکا میں رنگ دار افراد کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈیرک جانسن نے ٹرمپ کے انتخاب کو افسوسناک قرار دیا اور کہا نفرت کو بڑھاوا دینے اور اسے تسلیم کرنے والے صدر کا انتخاب ہماری بدقسمتی ہے۔ سی این این کے مطابق یہ پیغام دوسری رنگ دار نسلوں کو بھی بھیجا گیا ہے، ایک ای میل میں لفظ نیگر کا بھی استعمال کیا گیا، جسے کسی سیاہ فام کو کمتر ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے غیرقانونی تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے، انھیں نکالنے کے لیے فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقدام بھی اسی نسلی برتری کا ایک حصہ ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کے عہدے دار تو ان تارکین وطن کے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی امریکی ماننے کو تیار نہیں ہے، اور ان بچوں کو بھی ملک بدری کا سامنا کرنا ہوگا، نسلی برتری کی اس سے اعلی مثال کیا ہوگی کہ چاہے آپ امریکی شہریت کا حق ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، اگر رنگ دار ہیں تو امریکا میں آپ کی کوئی گنجائش نہیں۔
امریکی معاشرے کو ایک اور خطرے کا بھی سامنا ہے اور وہ انتظامی تباہی ہے، امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون میں غیر رسمی طور پر یہ بحث جاری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد غیرقانونی احکامات جاری کیے یا امریکی فوج کو اندرون ملک ذمہ داریاں تفویض کیں اور یا پھر بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا تو وزارت دفاع کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی انتظامیہ میں وفاداروں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور کرپٹ عناصر یعنی ٹرمپ مخالف اہلکاروں کا صفایا کریں گے۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ وہ بدترین صورتحال سے نمٹنے کی پیش بندی کررہے ہیں، قانونی طور پر فوج کو یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے غیرقانونی اقدامات پر عمل کرنے سے انکار کرسکتی ہے۔
لیکن اگر صدر نے غیرقانونی حکم دیا تو کیا ہوگا؟ کیا اعلی فوجی قیادت مستعفی ہوگی یا کوئی اور قدم اٹھائے گی؟ ٹرمپ کی سابق انتظامیہ کے عہدے دار کے مطابق ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں ٹرمپ اور فوج کے درمیان تعلقات انتہا سے بھی زیادہ خراب تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے والے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور وائٹ ہاوس میں چیف آف اسٹاف ریٹائرڈ جنرل جان کیلی نے کہا کہ فاشسٹ کی تعریف پر ٹرمپ پورا اترتے ہیں۔
نسل پرستی، غیرقانونی احکامات، برطرفیاں، وفاداروں اور انتہاپسندانہ نظریات کے حامل افراد کا تقرر، ٹرمپ کی ان سچائیوں نے امریکی انتظامیہ اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ امریکا کو ریاست ہائے متحدہ بنے ہوئے 248سال ہوچکے ہیں، وفاق اور ریاستیں اپنے اپنے دائرے میں کام کرتی ہیں، امریکا کو جس چیز نے ابھی تک متحد رکھا ہے وہ سسٹم کا چیک اینڈ بیلنس اور جمہوریت ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ حلف اٹھاتے ہی بہت سے ایسے حکم صادر کریں گے جس کے امریکی سیاست و معاشرت اور دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر امریکی صدر نے ایسا حکم دیا جو غیرقانونی ہو تو کیا امریکی افواج اسے ماننے سے انکار کردیں گی؟ کیا پینٹاگون نے مداخلت کا فیصلہ کررکھا ہے؟ کیا امریکی تاریخ کے طاقت ور ترین صدر کو مخالفت کا سامنا ہوگا؟ یا سب بادشاہ سلامت زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے اور دنیا کو جمہوریت کی شکل میں ایک نئی آمریت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی ہٹلر ثانی۔