Wednesday, July 3, 2024
ہومتازہ ترینمخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، چیف جسٹس

مخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ، مخصوص نشستوں پر کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جارہی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں 30 منٹ میں دلائل ختم کردوں گا اور صرف 4 نکات پر بات کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 چیرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے دستخط کیے ہیں۔ جب پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تھے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر تحریک انصاف ایسی کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہوجاتا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارجس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی برس قبل سے آ رہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے ہیں، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا کہ انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکے۔ بطور وزیر اعظم درخواست دی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمد خان نے سرٹیفیکیٹ نہ ہی ڈیکلریشن میں کچھ لکھا، ایسے بے شمار کاغذات نامزدگی ہیں جو بلینک ہیں۔

حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے۔ سکندر بشیر نے بتایا کہ حامد رضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزاد امیدوار کا؟ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا چاہیے تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا نہ کہ آزاد امیدوار؟ سکندر بشیر نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر، پشاور ہائیکورٹ کا 10 جنوری کو جبکہ 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کا بتا دیتی تو کچھ ہوسکتا تھا۔

حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، الیکشن کمیشن
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوا تھا؟ سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔ حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا اور بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے۔
حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کروائی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے۔
پی ٹی آئی نے فارم 66، 22 دسمبر جبکہ پارٹی سے وابستگی کے سرٹیفیکیٹ 13 جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی کے سرٹیفیکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیں تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکیٹ منسلک ہیں؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔