Friday, May 23, 2025
spot_img
ہومکالم وبلاگزجوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن

جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن

تحریر۔۔۔رفعت اشرف ورک
پاکستانی معاشرہ ایک ایسی نازک ڈور پر کھڑا ہے جہاں روایت اور جدیدیت کے درمیان کشمکش شدت اختیار کر چکی ہے۔ خاص طور پر خواتین کے لیے، یہ تصادم زندگی کے ہر موڑ پر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم)ہے، جو آج بھی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا ایک مضبوط جزو مانا جاتا ہے، مگر اس کی قیمت بالخصوص خواتین کو چکانا پڑتی ہے۔ماضی میں، جب تعلیم عام نہ تھی، عورت کو رسم و رواج کے سانچے میں ڈھالا جاتا تھا۔ اسے سکھایا جاتا تھا کہ وہ نہ صرف اپنے میکے بلکہ سسرال کے تمام افراد کے ساتھ سمجھوتے کر کے زندگی گزارے۔ شوہر کو “مجازی خدا” مان کر اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا ہی نیکی اور سعادت مندی سمجھی جاتی تھی۔

ایسی عورتیں خاموشی سے سمجھوتے کر کے زندگی گزارتی تھیں کیونکہ انہیں یہی سکھایا گیا تھا۔تاہم، آج کی عورت باشعور ہے۔ تعلیم، میڈیا اور معاشرتی آگاہی نے اسے نہ صرف اپنے حقوق کا شعور دیا ہے بلکہ ایک بہتر زندگی کی امید بھی۔ اب ایک لڑکی محض گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں رہنا چاہتی بلکہ وہ اپنی شناخت، کیریئر، ذہنی سکون اور شخصی آزادی کی خواہشمند ہے۔ ایسے میں جب اسے جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایڈجسٹ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو وہ شدید ذہنی دبا کا شکار ہو جاتی ہے۔ایک ہنستی مسکراتی، زندگی سے بھرپور لڑکی جب ہر وقت نگرانی، تنقید، مداخلت اور غیر ضروری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے آ جاتی ہے تو اس کا وجود ایک روبوٹ کی مانند ہو جاتا ہے۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، حتی کہ لباس اور بول چال تک پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کی خواہشات، خواب، اور آزادی آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہیں۔

وہ اندر ہی اندر گھٹتی ہے، لیکن معاشرے کے خوف یا خاندانی دباو کے تحت اپنی تکلیف کا اظہار بھی نہیں کر پاتی۔معاشرتی ماہرین اور ماہرینِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کا دبا خواتین میں ڈپریشن، اینگزائٹی، کم اعتمادی اور جذباتی عدم توازن جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، پاکستان میں شادی شدہ خواتین میں ذہنی دبا کی ایک بڑی وجہ خاندانی مداخلت اور ساس بہو کے روایتی جھگڑے ہیں، جو عموما مشترکہ خاندانوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اپنی روایت کو مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ خاندانی نظام کے بہت سے فوائد بھی ہیں جیسے باہمی تعاون، مالی سہولت اور بچوں کی تربیت میں بزرگوں کا کردار۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کو بھی ارتقائی مراحل سے گزرنا چاہیے۔ نئی نسل کو خود مختار زندگی کا حق دینا ہوگا، جہاں وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں، اپنی زندگی کو اپنی سوچ کے مطابق ترتیب دے سکیں۔جوائنٹ فیملی سسٹم آج بھی پاکستانی معاشرے کا ایک اہم جزو ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ اس نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو ذہنی، جذباتی اور شخصی طور پر آزاد ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ ایک خوشحال، پرامن اور نتیجہ خیز زندگی گزار سکیں۔ نئی سوچ، نئی نسل اور نئی دنیا میں پرانے بندھنوں کو بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔