Sunday, September 8, 2024
ہومبریکنگ نیوزاختلافی نوٹ: جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیدیا

اختلافی نوٹ: جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیدیا

اسلام آباد(آئی پی ایس) پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کیس میں لکھے گئے اپنے اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں اور عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمنٹ کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے۔
جسٹس شاہد وحید کی جانب سے جاری کردہ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 191 کا سہارا لینے کی اجازت ملی تو عدالتی معاملات میں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہوسکے گی، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی نیا دائر اختیار تقویض نہیں کیا جا سکتا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس شاہد وحید نے لکھا ہے کہ ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کے مطابق ہی بنا سکے گی، ججز کی 3 رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اسکی جگہ کون لے گا، اس ضمن میں قانون خاموش ہے، قانون کے مطابق کوئی دوسرا جج کسی کمیٹی ممبر کی جگہ نہیں لے سکتا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کو کسی مداخلت کے بغیر آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔

جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمنٹ کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔

جسٹس شاہد وحید نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ اگر کمیٹی کے 2 ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہ دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہوں گے۔

جسٹس شاہد وحید کا موقف ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن 3 کے مطابق 184/3 کے تحت بنیادی حقوق کا کیس 3 رکنی بنچ سن سکتا ہے جبکہ سیکشن 4 کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح 5 رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے، جو ایک دوسرے سے متضاد ہے، کیونکہ سیکشن 3 سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن 4 پابندی لگاتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔