تحریر ۔۔ارمان یوسف
دنیا بھر میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران روایتی ایندھن پٹرولیم مصنوعات اور کوئلے کے کارخانوں ، پاور پلانٹس اور گاڑیوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والے موسمیاتی تغیرات نے دنیا کو تباہی کے اس دہانے پر پہنچا دیا ہے جو ہرسال سیلاب ، خشک سالی ، درجہ حرارت میں اضافے اورآتشزدگی وغیرہ کی صورت میں نہ صرف ہزاروں ،لاکھوںافراد کی جانیں لے رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہر سال معیشتوں کو بھی کھربوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے ۔
روایتی ایندھن کا استعمال کے نتیجے میں اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سب سے زیادہ گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہے ہیں تاہم اس کا نقصان دنیا کے ترقی پذیر ممالک اور تھرڈ ورلڈ کنٹریز کو اٹھانا پڑ رہا ہے ، موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے چیلنجز پر قابو پانے کیلئے ہر سال کوپ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دعوئوں کے برعکس ان چیلنجز پر قابوپانے کیلئے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ،کوپ معاہدے کے تحت ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے چیلنجز پر قابو پانے کیلئے ترقی پذیر ممالک کو 100ارب ڈالر زدینے کا وعدہ کیا گیا تھا تاہم امریکہ کی طرف سے انکار کے بعد یہ بھی فائلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ، 2022میں مصر میں ہونے والی کوپ 27کانفرنس میں پہلی مرتبہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کیلئے عالمی فنڈ قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد امید دکھائی دینے لگی ہے کہ اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے ۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کا ذکر کیا جائے تو جنوبی ایشیائی خطہ پہلے نمبر پر آتا ہے ، صرف پاکستان میں ہی گزشتہ مون سون سیز ن میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 4کروڑ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور کروڑوں متاثرہ لوگ اب بھی امداد اور بحالی کے منتظرہیں ۔حکومت پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں سیلاب کی وجہ سے معیشت کو 30ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کی وجہ سے پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی 2050 تک 18 سے 20 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وقوع پذیر ہونے والی ان موسمیاتی تبدیلیوںکی وجوہات کیا ہیں اور انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ، 20ویں صدی کے دوران ہونے والی نت نئی ایجادات اور ترقی کے دھارے نے ایک طرف جہاں خوابوں کو حقیقت میں بدلا وہیں موسمیاتی تغیرات ، عالمی درجہ حرارت میں اضافے سمیت ایسے چیلنجز بھی سامنے لا کھڑے کئے جنہوں نے دنیا کو نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے ،روایتی ایندھن کا بے جا استعمال گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے جس کا متبادل اپنا کر موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز پر قابوپانے میں بڑی مدد مل رہی ہے ۔
دنیا بھر میںروایتی ایندھن کے متبادل کے طور پر گرین ہائیڈروجن کے فروغ کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں، ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا میں نہ صرف حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔توانائی کے ایک ذریعے کے طور پر ہائیڈروجن کا آئیڈیا کافی عرصے سے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ اس پر کبھی بھی بھرپور طریقے سے کام شروع نہیں کیاجا سکا ، جرمنی نے گرین ہائیڈروجن کی ترقی کے فنڈ کے لیے سب سے زیادہ رقم مختص کی ہوئی ہے جبکہ سعودی عرب کی طرف سے بھی گزشتہ سالوں میں گرین ہائیڈروجن پر وسیع سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔
دنیا کو گلوبل وارمنگ سے بچانے کیلئے متبادل توانائی کے طور پر گرین ہائیڈروجن کا استعمال اتنا زبردست منصوبہ ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے قابل تجدید ایندھن کے ذرائع سے تیار کیا جائے تو یہ طریقہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے پاک ہو گا،یورپ، مشرقِ وسطی اور ایشیا بھر میں کئی کمپنیاں اس نئے ایندھن کا رخ کر رہی ہیں۔ مگر امریکہ اس کی جانب جانے میں کافی پیچھے ہے کیونکہ قدرتی گیس جیسے ایندھن کے دیگر ذرائع کی قیمت بہت کم ہے،لیکن کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہونے جا رہا ہے جن میں امریکی ریاست یوٹا کا گرین ہائیڈروجن سے چلنے والا بجلی گھر ہے، جو تیل سے چلنے والے دو بجلی گھروں کی جگہ لے گا اور یوٹا سمیت جنوبی کیلیفورنیا اور نیویڈا کے لیے بھی بجلی بنائے گا۔گرین ہائیڈروجن کئی ایسی باتوں کا حل ہے جو لوگوں کو رات بھر سونے نہیں دیتی ہیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک گرین ہائیڈروجن کے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں ۔