لاہور(آئی پی ایس )قومی ائیر لائن پی آئی اے کو بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ بڑے ہی منظم طریقے سے لوٹا گیا، جہازوں کو لیز پر لینے اور بعد ازاں انہی جہازوں کو خرید نے سے لے کر ان کے مختلف اسپئر پارٹس اوپن مارکیٹ سے خریدنے کے بجائے ایجنٹس کے ذریعے خریدنے سے لے کر ٹریولر ایجنٹوں کی ملی بھگت سے ڈمی بکنگ اور ریفنڈز کی مد میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس امر کا انکشاف آڈٹ جنرل پاکستان کی رپورٹ میں کیا گیا جبکہ نامی گرامی آڈٹ فرم انٹرنل اڈٹ میں ان فراڈ کو پکڑنے میں ناکام رہی۔
سال 2007 سے لے کر سال 2017 تک کے دس سال کے آڈٹ میں ایسے ایسے فراڈ سامنے آئے ہیں کہ پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ بھی حیران و پریشان ہے کیونکہ فراڈ کرنے والے آج بھی پرکشش اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔پی آئی اے میں مخصوص ٹریول ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ڈمی سیٹوں کی بکنگ کرکے اندرون اور بیرون ممالک جانے والی پروازوں میں سیکڑوں سیٹیں خالی رکھی گئیں کہ ٹریول ایجنٹس فروخت کرلے گا، ٹریول ایجنٹس ڈمی بکنگ کر کے ظاہر کرتے کہ سیٹیں فل ہو چکی ہیں مگر فلائٹ جانے سے ایک گھنٹہ قبل پتا چلتا کہ متعلقہ ٹریول ایجنٹس سیٹیں فروخت ہی نہیں کرسکا اور آدھا آدھا جہاز خالی گیا۔
سال 2011 سے لے کر سال 2017 تک 8 ہزار 800 ٹکٹیں 45 ہزار بار ریفنڈز ہوئیں یعنی ایک ٹکٹ ایوریج پانچ بار ریفنڈز ہوا، جہازوں کو لیز پر لیتے وقت 75 ملین ڈالر کرائے زائد ادا کیے گے جبکہ یہی جہاز دیگر ائیر لائن نے اس سے بھی کم قیمت پر لیز پر لیے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انٹرنل آڈٹ کرنے والی معروف اور نامی گرامی آڈٹ فرموں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا سب سے زیادہ قصوروار پی ائی اے کے انجینئر ڈیپارٹمنٹ کو ٹھہرایا گیا ہے جس نے جہازوں کے اسپیئر پارٹس جہازوں کی لیز اور بعد ازاں ان کو خریدنے کے معاملے میں جان بوجھ کر ملی بھگت کر کے ایسے طیارے بھی خریدے اور لیز پہ لیے جو قابل استعمال نہیں تھے بلکہ انہیں ان ممالک میں گرانڈ کیا گیا تھا اور جن کمپنیوں کے ساتھ ایگریمنٹ ہوا ان کو بھی گو تھرو نہیں کیا گیا۔
بوئنگ ٹرپل سیون (777) جس کی ایوریج عمر 30 سال ہے یعنی کہ 30 سال تک بلکہ اس سے زیادہ عرصہ استعمال ہوسکتا تھا بلکہ وہ 10 سے 12 سال اور حد سے حد 14 سال بعد ہی ناکارہ ہو گئے اس پر بھی کسی سے باز پرس نہیں کی گئی۔ پی ائی اے کے خسارے میں جانے کی سب سے بڑی وجہ پی آئی اے کی مالی کرپشن ہے پی آئی اے میں گولڈن ہینڈ شیک دے کر ساڑھے تین سے چار ہزار ملازمین کو فارغ تو کر دیا گیا مگر پی آئی اے اج بھی خسارے میں ہے۔
پی آئی اے کے سابق آڈیٹر جنرل اشتیاق رضوی نے بتایا کہ جب انہوں نے پی آئی اے میں فراڈ پکڑ ے تو انہیں تبدیل کر دیا گیا، پی آئی اے کے افسران کی اپنی کمپنیاں ہیں یا وہ ان کمپنیوں کے خفیہ ایجنٹ ہیں اور ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچا کر لاکھوں کروڑوں روپے کک بیک کی مد میں کمالیتے ہیں، ایک جہاز کے ایک ہی پارٹ کو دس دس بار تبدیل کیا جاتا رہا ہے اور اوپن مارکیٹ کے بجائے مخصوص کمپنیوں سے ہی پارٹس خریدے جاتے رہے، پی آئی اے کو فروخت کرنے کے بجائے ان لوگوں سے ریکوری کی جائے اور اچھے اور باصلاحیت افسران کو تعینات کیا جائے تو پی آئی اے دو سال میں ہی اپنے پاں پر کھڑی ہوجائے گی۔