تحریر: حمیرہ الیاس
@humma_g
چوبیس اکتوبر 2021 کی شام آئی سی سی کے زیر انتظام ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کرکٹ کا سنسنی خیز میچ کھیلا گیا جو پاکستان نے یطرفہ مقابلے کے بعد دس وکٹ سے جیت لیا۔ اس میچ میں بہت سارے ریکارڈ نئے بنے جن کی وجہ سے کرکٹ کے حلقہ میں پاکستانی ٹیم کی بہت دھوم مچی ہوئی۔ اس میچ سے قبل، بہترین پہلی وکٹ شراکت کا ریکارڈ 106 رنز کا تھا جو بابر اعظم اور محمد رضوان نے 152 پر پہنچا دیا۔ پاکستان ورلڈ کپ میں ہندوستان کو کبھی نہیں ہراسکا تھا جو اس بار ممکن کر دکھایا گیا۔ اور ہماری بھی ایک دو نہیں پورے دس وکٹوں حاصل کردہ فتح جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے ۔
اس قسم کے تمام ریکارڈز اپنی جگہ مسلمہ ہیں لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے سیاسی اکھاڑے میں ہونےوالی تبدیلیوں نے کرکٹ کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے ان میں سب سے اہم فوکس رکھا گیا پاکستان کو کھیل کے میدان میں تنہا کرنا ہے جس طرح پروپیگنڈہ وار چلائی گئی پاکستان میں دہشت گردی کے حوالہ سے، سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد صورتحال گھمبیر ہوتی چلی گئی، اور پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت پیچھے دھکیل دیا گیا۔
لیکن سلام ہے پی سی بی کو جس کی کاوشوں کی بدولت تمام سازشیں ناکام ہوئیں اور پاکستان دنیائے کرکٹ میں معدوم نہیں ہوا۔ پاکستان کے کھیلنے کے لئے نیوٹرل وینیو ڈھونڈے گئے، میچز کے انعقاد کے لئے مختلف ممالک میں ٹیموں کو بھجوایا گیا، پھر پاکستان لیگ کے بھی میچز دبئی کے سٹیڈیمز میں کرائے گئے، لیکن نہ تماشائیوں نے ہار مانی نہ کھلاڑیوں نے۔
حال ہی میں منسوخ ہونے والے دونوں دورے، نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم گھر آئی ہوئی، میچ سے کچھ دیر قبل کھیلنے سے انکار، اور وجوہات میں آنڈیا سے جاری ہونے والی دھمکیاں، اسی طرح فائیو آئی کی طرف سے جاری کردہ دہشت گردی کے انتباہ نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو بھی دورہ منسوخ کرنے پر مجبور کردیا ہندوستان تو پاکستان کا روایتی حریف رہا ہے سیاست سے لے کر کھیل تک،کیا اب یہ اتنے بڑے بورڈز بھی ہندوستان کے پروپیگنڈہ کو سپورٹ کرتے نظر آئیں گے؟ حتی کہ آئی سی سی کا رویہ بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہا کہ کیا کھیل کوبھی سیاست نے اغواء کر لیا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندرسے کھیل پر بھی سیاست اورصرف سیاست، ایک منفی تاثر قائم کررہا ہے۔ جبکہ ساری قوم اس جیت پر متحد تھی تو سیاست میں پھر بھی کچھ چمچہ پارٹیاں ہمیں پارٹی بازی ہی کرتی دکھائی دیں،جو ایک بڑی وجہ ہو سکتا ملک سے کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کے ختم ہونے کی۔ جبکہ دیکھا یہ گیا کہ جس ایجنڈے پر کچھ مخصوص سیاسی حلقہ بے جا تنقید کر رہا تھا، پارٹی سے متعلقہ صحافی بھی اس بڑی جیت کو سرسری نگاہ سے دیکھتے دکھائی دئیے۔ کیا یہ صحافت کے ساتھ انصاف ہے؟ اگر نہیں تو کیا ہماری صحافتی ایجنسیاں ان سیاسی پارٹیوں کے آگے بے بس ہیں؟ سوچنے کے بہت سے مقامات ہیں، وہیں ہمارے کھیلوں کی زباں حالی کی وجوہات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں کھلاڑیوں کو سیاسی عناد میں صرف انٹرنیشنل ہی نہیں نیشنل سطح پر بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سب کھینچا تانی کئ باوجود شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنے والوں سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ کیا ملک پاکستان سے نفرت کے بدلے ملنے والے ڈالر، حب وطن پاکستانیوں کو آگے آنے سے روک پائیں گے؟؟
ہماری مٹی بہت زرخیزہے، اور نمی کا انتظام کسی نہ کسی صورت اللہ کرتا ہی رہتا، سب سیاستدان اور صحافی،جنہوں نے پاکستان سے عناد میں کھیل کوتاریخوں میں دھکیلا ان سے حساب کتاب ہوتا رہے گا ۔
پاکستان زندہ باد۔