اسلام آباد ،وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے کہا ہے کہ کاشتکاروں کو کپاس کے بیج ،کھاد اور وائٹ فلائر پیسٹی سائیڈ پرسبسڈی کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دے دی ہے، یہ سبسڈی صوبوں کے ذریعے براہ راست کاشتکاروں تک پہنچائی جائے گی، گزشتہ 30سال سے زراعت کے شعبے کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی،زراعت موجودہ حکومت کی ترجیہات میں شامل ہے جبکہ سیکرٹری وزارت غفران میمن نے کہا ہے کہ جعلی سیڈ کمپنیوں کے خلاف مرحلہ وار کریک ڈائون شروع کر دیا گیا ہے، باقاعدہ طور پر یہ تجویز دی گئی ہے کہ 200سے زائد سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ نہ ہوں، صرف وہی کمپنیاں رجسٹرڈ رہیں گی جو عملا کارروبار کر رہی ہیں۔وہ جمعہ کو بیٹ رپورٹرز سے ملاقات میں گفتگو کر رہے تھے۔
وفاقی وزیر فخر امام نے کہا کہ کاشتکاروں کو زرعی تحقیق بارے درست معلومات سے آگاہی کیلئے ویب پورٹل بنا رہے ہیں تا کہ کاشتکاروں کو بروقت یہ معلوم ہو سکے کہ کس وقت کون سی سپرے کرنی چاہئے یا کس علاقے میں کون سی بیماری آئی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے زراعت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا، زراعت کا شعبہ موجودہ حکومت کی ترجیہات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلانٹ بریڈر بل اور سیڈ بل گزشتہ 20سال سے التوا کا شکار چلا آ رہے تھے، 5سال سے رولز نہیں بنائے گئے، پہلی دفعہ ہماری حکومت میں یہ بل منظور ہوئے ہیں اور ان پر عملی کام شروع ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس جیسی اہم ترین فصل اس سال شدید متاثر ہوئی ، کپاس کی فصل کی بڑھوتری کیلئے تین اہم اقدامات کرنے جا رہے ہیں ، کپاس کی فصل پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، کاشتکاروں کو کپاس کے بیج ،کھاد اور وائٹ فلائر پیسٹی سائیڈ پرسبسڈی کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دے دی ہے، یہ سبسڈی صوبوں کے ذریعے براہ راست کاشتکاروں تک پہنچائی جائے گی ،زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت زراعت، لائیوسٹاک اور فشریز کے شعبوں کے منصوبوں پر کام جاری ہے، زراعت کی ترویج کیلئے ریسرچ اور ٹیکنالوجی کا استعمال اولین ترجیح ہے،زرعی تحقیق کے معیار کو بہتر بنایا جا رہا ہے ، زراعت میں مڈل مین کا کردار ختم کریں گے ۔ اس موقع پر سیکرٹری وزارت فوڈ سکیورٹی غفران میمن نے کہا کہ پاکستان میں بھارت میں اتنی سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ نہیں جتنی پاکستان میں ہیں، پاکستان میں ایک ہزار کے قریب سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، میرٹ پر پورا نہ اترنے والی اور جعلی کمپنیوں کے خلاف مرحلہ وار کریک ڈائون شروع کر دیا گیا ہے، باقاعدہ طور پر یہ تجویز دی گئی ہے کہ 200سے زائد سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ نہ ہوں، سفارشیں آ رہی ہیں کہ کمپنیوں کی رجسٹریشن منسوخ نہ کریںتاہم یہ واضح کر دیا ہے کہ صرف وہی کمپنیاں رجسٹرڈ رہیں گی جو عملا کارروبار کر رہی ہیں۔