کرکٹ کا خوبصورت ماضی اور سلی پوائنٹ
رضی الدین رضی کا اختصاریہ
نیوزی لینڈکے ہاتھوں ٹی 20 میچ میں پاکستان کی شکست کی خبر سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں تھی بس یہ ہوا اس میچ نے ہمیں 1992 ءکا ورلڈ کپ یاد دلا دیا جب انضمام الحق نے ہمیں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں کامیابی دلائی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ کرکٹ سے ہماری دلچسپی ختم ہو گئی۔ شدید غصہ تھایا جھنجھلاہٹ تھی کہ ہم نے نیوز چینلز کی طرح سپورٹس چینلز بھی دیکھنا چھوڑ دیئے۔اور یہ لاتعلقی اب بھی موجود ہے کوئی بھی میچ ہو ہمیں دلچسپی ہی نہیں ہوتی کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔یہ دلچسپی ایک دن میں ختم نہیں ہوئی۔اس غصے اور جھنجھلاہٹ کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔یہ کھیل جوئے میں تبدیل ہوااور کھلاڑیوں اور جواریوں کا نام ایک ساتھ آنے لگا۔میچ فکسنگ معمول بن گئی اور میچ سے ایک دن پہلے ہی بچوں کو معلوم ہونے لگا کہ نتیجہ کس کے حق میں آئے گا۔بکیوں نے اس خوبصورت کھیل کو ایسا برباد کیا کہ میچ دیکھنا وقت کا ضیاع لگنے گا۔ہمارے پاس اس کھیل کی بہت خوبصورت یادیں ہیں۔سو ہم نے خود کو کرکٹ کے خوبصورت ماضی کا ہی اسیر کرلیا۔عمران خان کے یارکر،جاوید میانداد کاچھکا،سرفراز کی سوئنگ باولنگ،مدثرنذر کی سست ترین بیٹنگ،ماجد خان کی بلے بازی،وسیم باری کی وکٹ کیپنگ،وسیم راجا کی الٹے ہاتھ سے بیٹنگ اور ہمیشہ نروس نائنٹیز ہو کر سنچری بنائے بغیر پویلین میں واپسی،ایشین بریڈ مین ظہیر عباس کی نظر کی عینک کے ساتھ ہیلمٹ پہنے بغیر جارحانہ بیٹنگ ،محسن حسن خان کی بیٹنگ اوررینارائے کے ساتھ شادی،عبدالقادر کی گگلی،وسیم اور وقار کی ڈبلیو جوڑی اوران سب کے ساتھ ساتھ جمشید مارکر،چشتی مجاہد،عمرقریشی ، حسن جلیل اور منیر حسین کی کمنٹری۔ یہ کمنٹری ہم ٹرانسسٹر پر سنتے تھے۔رات بھر ریڈیو کو کان سے لگائے رکھتے تھے اورہوا کی لہروں کے ساتھ ساتھ ٹرانسسٹر کو گھماتے تھے تاکہ آواز صاف سنائی دے۔کیا خوبصورت انداز تھا چشتی مجاہد،منیر حسین اورحسن جلیل کا۔ہمیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن چشتی مجاہد کی کمنٹری ہم ٹھیک طرح سمجھتے تھے۔آواز کا اتارچڑھاو¿،تماشائیوں کا جوش و خروش، یہ سب ہمارے خون کی گردش کو تیز کرتاتھا۔دل ایسے دھڑکتا تھا کہ جیسے ابھی سینے سے باہر آجائے گا۔ اورجب حسن جلیل کہتے تھے کہ بہت خوبصورت ہوا چل رہی ہے جو گیند کو سوئنگ کررہی ہے۔اور بیٹسمین مشکل کا شکارہیں۔توہمیں ملتان کی گرمی میں بھی انگلستان کی وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا روح کو سرشارکرتی محسوس ہوتی تھی۔
پھراس کے بعد ٹیلی ویژن کا زمانہ آیا۔کیمرے اس وقت زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ایک کیمرہ گراو¿نڈ کے ایک جانب ہوتاتھا اور کمنٹیٹر کی زبانی معلوم ہوتا تھا کہ یہ پویلین اینڈ ہے یا یونیورسٹی روڈ اینڈ۔پویلین اینڈ کے ساتھ ساتھ ہر شہر میں دوسری جانب کی باو لنگ کے لیے اس شہر کی مناسبت سے کوئی علاقہ بتایا جاتاتھا۔جتنی تیزی کے ساتھ اب ایکشن ری پلے دکھائی جاتے ہیں اس زمانے میں یہ ممکن نہیں تھا۔کسی اور کے بعد کسی چھکے یا وکٹ کا ری پلے کچھ اس انداز میں ٹی وی پر نظرآتا کہ کھلاڑی سلو موشن میں بھاگتے آتے یا پھرہمیں انداز ہوتا کہ چھکا کیسے لگا یا وکٹ کیسے گری۔یہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی اور بلیک اینڈ وائٹ کھلاڑیوں کا زمانہ تھا۔سفید کپڑوں میں ملبوس یہ کھلاڑی ٹیسٹ میچ اور ون ڈے میں گھنٹوں سکرین پرموجودرہتے۔اس زمانے میں ابھی ٹی وی گھرگھر نہیں آیاتھا۔سو دکانوں اورہوٹلوں کے باہر ایسے موقع پر ٹی وی سیٹ رکھ دیا جاتاتھا اور وہاں لوگوں کا ہجوم لگ جاتاتھا۔ہمارے سب کھلاڑی ہیروتھے۔ہم ان سے پیارکرتے تھے۔ان کی بڑی بڑی تصاویر بازاروں اور لوگوں کے ڈرائنگ رومز میں لگی ہوتی تھیں کرکٹ ابھی اتنی رنگین اور تیزنہیں ہوتی تھی۔یہ رنگ برنگے کھلاڑی توہمیں 90کے عشرے میں دکھائی دیئے۔اور پھر گیند بھی رنگین ہوگئے۔کیمروں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ایکشن ری پلے کی جگہ ریویو نے لی اور غلطی کا جو سارا بوجھ امپائر پر ہوتاتھا وہ ختم ہوگیا۔ایل بی ڈبلیو کو ہمیشہ متنازع فیصلہ ہی جانا جاتاتھا۔یادوں میں جاتے ہیں تو اور بہت سے مناظر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔بہت سے یادگارمیچ اپنے خوبصورت پس منظر کے ساتھ آج بھی ہماری یادوں کاحصہ ہیں۔۔نیشنل سٹیڈیم کراچی، قذافی سٹیڈیم لاہور،اقبال سٹیڈیم فیصل آباد،ایوب سٹیڈیم کوئٹہ،جناح سٹیڈیم سیالکوٹ ،ابن قاسم باغ سٹیڈیم ملتان،نیاز سٹیڈیم حیدرآباد،ارباب نیاز سٹیڈیم پشاور،جناح سٹیڈیم گوجرانوالہ اورپنڈی کلب گراو نڈ کے مراکز تھے۔یہ سب مراکز اب ویران ہوچکے ہیں۔پہلے جواریوں اور پھردہشت گردوں نے اس مقبول ترین کھیل کو دیس نکالا دیارہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی۔چلیے چھوڑیں اس بحث کو ہمیں تو ویسے بھی کرکٹ کی الف ب معلوم نہیں۔ہم تو نائٹ واچ مین کو چوکیدار اور سلی پوائنٹ کو بے وقوفوں کامرکز سمجھتے ہیں۔