تحریر: عاصم قدیر رانا
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز، یا “پی آئی اے”، وہ قومی ادارہ ہے جو کبھی ایشیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہوتا تھا، اور آج نجکاری کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جہاں ماضی میں “گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد” کا نعرہ فخر کی علامت تھا، وہیں آج PIA کے ذکر پر عوام کے دل میں دکھ، غصہ اور افسوس یکجا محسوس ہوتا ہے۔
تاریخی جھلک: جب پی آئی اے بلند پرواز تھا
• 1955 میں پی آئی اے کا قیام عمل میں آیا۔
• 1960 میں پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے بوئنگ 707 جیٹ سروس شروع کی۔
• 1970 کی دہائی میں PIA نے متعدد عالمی روٹس پر اپنی موجودگی قائم کی، اور کئی ممالک کی قومی ایئرلائنز (مثلاً Emirates، Air Malta) کے قیام میں تکنیکی معاونت بھی دی۔
• 1980 کی دہائی تک PIA کے پاس جدید ترین بیڑے، تربیت یافتہ عملہ، اور وسیع بین الاقوامی نیٹ ورک تھا۔
زوال کی ابتدا: سیاسی مداخلت، کرپشن اور اقربا پروری
PIA کے زوال کی اصل وجہ پیشہ ورانہ عمل کی جگہ سیاسی مداخلت کا فروغ تھا:
- سیاسی بھرتیاں: ہر حکومت نے اپنے سیاسی کارکنوں کو ملازمتیں دے کر ادارے کا بوجھ بڑھایا۔
- غیر ضروری روٹس: کئی غیر منافع بخش روٹس صرف سیاسی بنیادوں پر شروع کیے گئے۔
- کرپشن اور بدانتظامی: ٹکٹنگ، کیٹرنگ، جہازوں کی خریداری اور مرمت کے معاہدوں میں کرپشن معمول بن گئی۔
- بیڑے کی پرانی حالت: پرانے جہاز، تاخیر شدہ پروازیں اور مسافروں کی شکایات نے اعتماد کو کمزور کیا۔
اعداد و شمار کی زبان میں
PIA آج جس مقام پر کھڑی ہے، وہ کئی دہائیوں کی لاپرواہی، سیاسی بھرتیوں، اور بدانتظامی کا نتیجہ ہے:
• 2024 تک مجموعی خسارہ: 713 ارب روپے
• سالانہ آپریٹنگ خسارہ: تقریباً 80 سے 100 ارب روپے
• فیول، سروسز، اور قرضوں پر سود: ادارے کی آمدنی سے زیادہ
• 2023 میں: ہر 100 روپے کمائی پر تقریباً 130 روپے خرچ ہو رہے تھے
• عملے کی تعداد: 12,500 سے زائد، جبکہ عالمی معیار کے مطابق ایک ایئرکرافٹ پر 150 افراد مناسب ہوتے ہیں، پی آئی اے میں یہ شرح 500 سے زیادہ ہے۔
• ماضی میں کئی مرتبہ اصلاحاتی منصوبے شروع کیے گئے، جیسے:
• 2011 میں restructuring plan
• 2016 میں جزوی نجکاری کی کوشش
• 2020 میں COVID-19 کے دوران bailout
• مگر ہر کوشش بیوروکریسی، عدالتی حکم امتناع، یا سیاسی مزاحمت کی نذر ہو گئی۔
موجودہ نجکاری کا فیصلہ: 2025 کی حقیقت
حکومتِ پاکستان نے بالآخر 2025 میں فیصلہ کیا کہ پی آئی اے کو مکمل یا جزوی طور پر نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے۔ حکومت کی جانب سے نجکاری کمیشن نے 8 بین الاقوامی اور قومی کنسورشیمز کو اہل قرار دیا ہے، جن میں شامل ہیں:
- Etihad Airways
- Turkish Airlines (Joint Venture Interest)
- Qatar Investment Authority
- Arif Habib Group
- Airblue Consortium
- Gerry’s Group
- Indigo Partners (USA)
- Serene Air Investment Group
نجکاری: امید یا خدشہ؟
امیدیں:
• جدید انتظام، بیڑے کی بہتری
• کرپشن کا خاتمہ
• منافع بخش روٹس کی بحالی
• مسافروں کے اعتماد کی واپسی
• حکومت پر مالی بوجھ کا خاتمہ
خدشات:
• روزگار کے مواقع کا خاتمہ
• ٹکٹ مہنگے ہونے کا امکان
• قومی شناخت کے نقصان کا احساس
• نجی اجارہ داری کا خدشہ
قومی غیرت یا عملی فیصلہ؟
پی آئی اے کی نجکاری بظاہر ایک تکلیف دہ مگر ناگزیر فیصلہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس پر قوم نے فخر کیا، اور جس کا زوال قوم کی اجتماعی ناکامی کی علامت ہے۔ آج اگر ہم نجکاری کے فیصلے پر پہنچے ہیں، تو یہ ایک تلخ حقیقت کا اعتراف ہے — ہم ایک قومی ادارے کو اپنی کرپشن، سیاست، اور نااہلی سے بچا نہ سکے۔
لیکن اگر نجکاری شفاف، عوام دوست، اور شراکت داری کے ماڈل پر ہوئی، تو شاید یہ وہ پرواز بن جائے جو PIA کو ایک نئی بلند پر لے جائے۔