اسلام آباد (آئی پی ایس )یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ امن کا راستہ غیر مشروط طور پر شروع ہونا چاہیے، تاہم روس امن معاہدے میں رکاوٹ بن رہا ہے، لہذا روس پر مذاکرات کے بجائے دبا ڈالنے کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ ایک ہی زبان سمجھتا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جاری بیان میں یہ بات بتائی۔
پوسٹ کے مطابق یوکرین کے اتحادی یورپی ممالک کے سربراہان کے ساتھ ورچوئل اجلاس سے خطاب میں نے کہا کہ امن کا راستہ غیر مشروط طور پر شروع ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر روس ایسا نہیں چاہتا تو اس وقت تک سخت دبا ڈالا جانا چاہیے جب تک کہ وہ ایسا نہ کرے کیوں کہ ماسکو ایک ہی زبان سمجھتا ہے۔
اپنی پوسٹ میں یوکرینی صدر نے کہا کہ منگل کے روز سے جنگ بندی سے متعلق امریکا کی تجویز زیر بحث ہے، جس میں 30 روز کے لیے فضائی، سمندری اور زمینی سطح پر مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی شامل ہے جب کہ اس عرصے کے دوران حقیقی امن کے لیے تمام پہلوں کا جائزہ لینا ممکن ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران ہم نے اس حوالے سے بات کی کہ کون چیزوں کو سست کرے گا اور امن میں تاخیر کرے گا، اب ہم یہ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، یہ جنگ بندی پہلے ہوسکتی تھی لیکن روس اسے روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
یوکرین کے صدر نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ولادی میر پیوٹن زمینی صورتحال سے متعلق غلط بیانی کررہا ہے، خاص طور پر کرسک کے علاقے میں جہاں یوکرینی افواج اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر جنگ بندی سے متعلق بھی جھوٹ بول رہے ہیں کہ یہ عمل بہت پیچیدہ ہے، درحقیقت اس کے ذریعے سب کچھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اس بارے میں ہم امریکا سے بات کرچکے ہیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ جدہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد پیوٹن اس جنگ کو تقریبا ایک ہفتے تک آگے بڑھا چکا ہے اور وہ مزید اسے آگے لے جائے گا۔ولادی میر زیلنسکی نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا کہ 3 سال سے روس کی اس جنگ میں صرف تباہی دیکھی گئی اور اب اس کو روکنے کے لیے صرف بات چیت نہیں بلکہ دبا کی ضرورت ہے، امریکا جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے لیے روس پر دبا ڈالے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ دنیا جان لے کہ روس امن قائم کرنا نہیں چاہتا، روس امن معاہدے میں رکاوٹ بن رہا ہے، روس پر دبا ڈالا جائے جس میں روس کے خلاف سخت پابندیاں بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کی سلامتی کے لیے ہمیں تحریری ضمانت چاہیے، ہمیں سیکورٹی گارنٹی پر ایک واضح پوزیشن درکار ہے جب کہ میں یورپی یونین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس وقت ہماری مدد کررہے ہیں۔یورپی رہنماں کے ساتھ ورچوئل اجلاس میں خطاب کے دوران یوکرینی صدر نے کہا کہ میں آپ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ یوکرین اور مستقبل میں اپنے ممالک میں فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کے بارے میں نہ بھولیں کیوں کہ ہم سب کو تحفظ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پیوٹن روس کی سرزمین پر کچھ غیر ملکی دستے لانا چاہتے ہیں تو یہ ان کا کام ہے لیکن یوکرین اور یورپ کی سلامتی سے متعلق ہمیں فیصلے کرنا ہوں گے اور ہمیں نہ صرف یورپ اور جی سیون ممالک بلکہ دنیا بھر کے دیگر تمام ممالک کو امن کی خاطر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس جنگ کو منصفانہ طریقے سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے سفارت کاری کو زیادہ سے زیادہ متحرک کیا ہے تاہم دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ روس ہی امن کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے۔ولادی میر زیلنسکی نے یورپی رہنماں سے درخواست کی کہ روس کو امن کی خاطر تمام ضروری اقدامات اٹھانے پر مجبور کرکے امن قائم کیا جائے اور اس حوالے سے امریکی صدر سے بھی بات کریں اور امن کا راستہ غیر مشروط طور پر شروع ہونا چاہیے۔ اگر روس ایسا نہیں چاہتا تو اس وقت تک سخت دبا ڈالا جانا چاہیے۔
دوسری جانب، برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ روس یوکرین امن مذاکرات کے لیے پیوٹن پر دبا ڈالا جائے گا اور مذاکرات کے لیے راضی کیا جائے گا جب کہ یوکرین کا ہر طرح سے بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ کوئی حکمت عملی بنائی جائے، یوکرین امن چاہتا ہے لیکن روس تاخیر کررہا ہے۔