ڈاکٹر جمال حسن الحربی
جواب دینے سے پہلے، ہم خادم حرمین شریفین اور ولی عہد کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، جو مملکت کے وژن اور عالمی منصوبوں کے معمار ہیں اور جنہوں نے ہمیں ایک عظیم مقام تک پہنچایا۔ ہم سعودی عوام کو بھی اس عظیم کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہماری پیاری مملکت، اپنی مدبر قیادت کے زیر سایہ تمام شعبوں میں تاریخی اور عظیم کامیابیاں حاصل کر رہی ہے، خاص طور پر کھیلوں کے میدان میں۔ سعودی عرب تاریخ میں وہ پہلا ملک ہو گا جو اکیلا ورلڈ کپ کے سب سے بڑے ایڈیشن کی میزبانی کرے گا، جس میں 48 قومی ٹیمیں پانچ شہروں میں مقابلہ کریں گی۔ یہ بین الاقوامی فٹ بال فیڈریشن (فیفا) کے نئے سسٹم کی منظوری کے بعد ہوگا۔ سعودی عرب نے گذشتہ جولائی میں اس ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے “ہم سب مل کر Grow کریں گے” کے نعرہ کے ساتھ اپنی باضابطہ درخواست پیش کی تھی، جس کے ذریعے اس نے اس اہم فٹ بال ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے اپنے بلند پایہ منصوبوں کا انکشاف کیا جس میں 15 اسٹیڈیمز میں میچز کی میزبانی کی جائے گی، جو ریاض، جدہ، الخبر، ابھا اور نیوم پانچ شہروں میں ہوں گے، ساتھ ہی دس دیگر مقامات بھی ہوں گے۔
سعودی عرب کا مقصد فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی کے ذریعے دنیا بھر کے کھلاڑیوں اور مداحوں کے لیے غیر معمولی تجربات فراہم کرنا ہے، ساتھ ہی شاندار سہولتیں اور رہائش مہیا کرنا ہے جو زائرین کی مختلف نوعیت کی ضروریات کو پورا کریں۔ اسی طرح مملکت ماحول کے تحفظ اور منصوبوں کی پائیداری پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک جدید نقل و حمل کا نظام دستیاب ہوگا جو شائقین کو اسٹیڈیمز تک جلد اور بہ آسانی پہنچنے کی سہولت فراہم کرے گا۔
پچھلے اکتوبر میں، “فیفا” کا آفیشل وفد سعودی عرب کی میزبانی کے لیے درخواست کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے لیے دورے پر آیا تھا۔ وفد نے میزبانی کرنے والے شہروں، منصوبوں اور کھیلوں کی ان تمام سہولتوں کا جائزہ لیا جو میزبانی کی درخواست میں درج تھی، اس کے علاوہ اس عالمی فٹ بال ایونٹ کی میزبانی کے لیے تمام آئندہ کی تیاریوں کا جائزہ لیا، جس میں پہلی بار تاریخ میں 48 قومی ٹیمیں ایک ملک میں شرکت کریں گی۔
سعودی عرب کی درخواست نے ٹورنامنٹ کی تاریخ میں سب سے اعلیٰ درجہ حاصل کیا، جس میں 500 میں سے 420 پوائنٹس حاصل کیے، جو ایونٹ (ہر چار سال بعد ہوتا ہے) کی میزبانی کی ضروریات کے مطابق ہیں۔ فیفا کے صدر جیانی انفنٹینو نے بدھ کو میزبان ممالک کے اعلان کے موقع پر کہا کہ “2034 کا ورلڈ کپ منفرد اور بے مثال ہوگا”، اور یہ بھی کہا کہ مملکت نے “ایک مکمل درخواست پیش کی ہے۔”
سعودی عرب نے 15 اسٹیڈیمز مختص کیے ہیں، جن میں سے 11 نئے اسٹیڈیمز ہیں، جن کی مجموعی گنجائش 775,000 سے زائد نشستوں پر مشتمل ہے۔ ان 15 میں سے 8 اسٹیڈیمز ریاض میں، 4 جدہ میں، اور الخبر، ابہا اور نیوم میں ایک ایک اسٹیڈیم ہے۔
کنگ سلمان اسٹیڈیم، جس پر اگلے سال کام شروع ہوگا اور 2029 تک مکمل ہونے کی توقع ہے، نئے اسٹیڈیمز میں اسے تاج کے ہیرہ کی مانند سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں 92,000 سے زائد تماشائیوں کی گنجائش ہوگی۔ اور اسی اسٹیڈیم میں پہلا اور فائنل میچ ہوگا۔
ٹورنامنٹ کے میزبان شہر دیگر 10 شہروں سے بھر پور معاونت حاصل کریں گے، وہ دس شہر الباہہ، جازان، طائف، مدینہ، املج، العلا، تبوک، حائل، الاحساء اور بریدہ ہیں۔
یہ شہر ٹورنامنٹ سے پہلے اور دوران قومی ٹیموں کے کیمپوں کی میزبانی کریں گے۔
چونکہ ٹورنامنٹ میں 48 ٹیمیں شریک ہوں گی، سعودی عرب میں شائقین کی ریکارڈ تعداد آنے کی توقع ہے۔ مملکت ان کی میزبانی کے لیے پانچ شہروں میں جہاں میچز ہوں گے، 232,000 سے زائد ہوٹل یونٹس فراہم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق، اس وقت ریاض، جدہ، الخبر، نیوم اور ابہا میں 47,000 ہوٹل یونٹس تیار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 185,000 سے زائد ہوٹل یونٹس کی تیاری کی جائے گی۔
اسی طرح سعودی عرب نے پانچ میزبان شہروں میں جشن منانے اور تقریبات کے لیے 10 زون مخصوص کیے ہیں، جن کی گنجائش مختلف ہو گی، ان میں گنجائش کے لحاظ سے سب سے بڑی جگہ ریاض میں کنگ سلمان پارک ہے، جو تقریباً 80,000 شائقین کو سمو سکتا ہے۔
سعودی فٹ بال فیڈریشن کے صدر جناب یاسر المسحل نے ایک سعودی اخبار کے ساتھ پچھلے انٹرویو میں بتایا کہ ورلڈ کپ کے لئے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کوئی بڑی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ مملکت اس وقت تیز رفتار ترقی کے مرحلے میں ہے، جہاں ہوٹلوں، اسپتالوں، سیاحت کے شعبے، اور فٹ بال کے شعبے میں توسیع کے منصوبے ہیں۔ اس میں خرچ ہونے والی رقم کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ یہ سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں حالیہ برسوں میں کئی بڑے منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جو 2028 تک اسے دنیا کی سب سے بڑی تعمیراتی مارکیٹ بنا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے لیے یہ بڑی کامیابی کئی اہم عناصر اور ضروریات مکمل کرنے کے بعد آئی ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے، ہمارے خواب اور خواہشات حقیقت بن چکی ہیں جسے ہم آج جی رہے ہیں۔ ہم سب کو مبارک ہو۔