کازان :22 سے 24 اکتوبر تک سولہواں برکس سربراہ اجلاس کازان میں منعقد ہو رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک بار برکس میکانزم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بیکار تتلی ہے جو مغربی غلبے والے عالمی نظام کے کونے میں اپنی پر گاڑ رہی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ، “تتلی کا اثر” خاموشی سے دنیا کو نئی شکل دے رہا ہے۔ایک کونے میں پر گاڑنے والی تتلی سے لے کر عالمی سطح پر اہم قوت تک، برکس پہلے سے بھی زیادہ اہم ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب نے کبھی بھی برکس میکانزم کی تضحیک، اس پر سوال اٹھانا اور اسے بدنام کرنا نہیں چھوڑا بلکہ اسے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک بڑا جال بچھانے کی کوشش کی۔ درحقیقت برکس ایک نئے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کی خصوصیت کثیر قطبیت ہے، اور اسے گلوبل ساوتھ کے مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جو زیادہ منصفانہ عالمی نظام کی حمایت کرتا ہے، اور اس طرح، یہ انسانیت کی تقدیر اور مستقبل سے قریبی طور پر جڑا ہوا ہے۔
دوسری طرف مغرب برکس نظام کی توسیع اور عالمی گورننس سسٹم میں اصلاحات کے برکس کے مطالبے کو مغربی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ یہ عالمی سیاست اور معیشت میں مغرب کے اثر و رسوخ کو کمزور کرتا ہے۔ بہرحال، بین الاقوامی حکمرانی کے نظام میں جمہوری اصلاحات کے لئے برکس کے مطالبے نے مغربی طاقتوں کو جھنجھوڑا ہے جو بالا دستی اور آمرانہ بین الاقوامی حکمرانی کے نظام کے کر تا دھرتا ہونے کے باوجود جمہوری نائٹس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مغربی سیاست دان، میڈیا اور کچھ اسکالرز برکس میکانزم کو بدنام کرنے اور اس کا موازنہ جی 7 اور یہاں تک کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد سے یہ کہتے ہوئے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برکس ممالک میں “فوجی اتحاد کے رجحانات” موجود ہیں۔درحقیقت برکس تعاون کا طریقہ کار ہمیشہ سے محض کثیر القومی تعاون کے ایک پلیٹ فارم کا رہا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ برکس میکانزم جس میں “لامرکزیت” شامل ہے،
کوئی بین الاقوامی تنظیم بھی نہیں ہے بلکہ ممالک کے درمیان ایک رضاکارنہ تعاون کا پلیٹ فارم ہے تو یہ غلط نہ ہو گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مغربی قیادت والی بین الاقوامی تنظیم سے بالکل مختلف ہے۔یہی وجہ ہے کہ برکس نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی طرف راغب کیا ہے، اور یہاں تک کہ ترکی نے بھی جس کا پس منظر نیٹو کا ہے، رکنیت کے لئے درخواست دی ہے جس سے پوری مغربی دنیا بے چین ہے۔یقیناً برکس ممالک کے بہت سے مخصوص مطالبات نے درحقیقت مغرب کو بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے جو بالادستی کے “طرز حکمرانی ” کی عادی ہے۔ 2008 میں پہلے برکس سربراہ اجلاس نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ اب جبکہ بڑی تعداد میں ممالک اپنی اپنی کرنسیوں میں لین دین کا انتخاب کرتے ہیں تو امریکہ کو زیادہ تشویش ہے کہ اگر برکس ممالک ایک خود مختار تجارتی لین دین کےنظام پر متفق ہو جاتے ہیں تو وہ “ڈی ڈالرائزیشن” کو فروغ دیں گے اور امریکہ کی مالی بالادستی کو ختم کردیں گے۔
درحقیقت “ڈالر کی بالادستی” ایک ایسا جال ہے، جسے ایک ہی بار ڈالنے سے امریکہ دنیا کی دولت کی لوٹ مار کر سکتا ہے۔ یہ جال اگر ٹوٹے گا تو امریکہ کیوں پریشان نہ ہو گا ۔برکس میکانزم کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے چین کے رہنما نے مختلف مواقع پر نشاندہی کی ہے کہ “آج دنیا اس صدی میں ہونے والی بڑی اور بے نظیر تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، عالمی پیٹرن، بین الاقوامی نظام اور طاقت کے بین الاقوامی توازن میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، اور عالمی نظام کو نئی شکل دی جا رہی ہے”۔ یہ صورتحال ” فار ہوم دا بیل ٹالز ” کی سی ہے۔ عالمی پیٹرن کے بارے میں چین کا فیصلہ درحقیقت مغرب کو بہت تکلیف دے رہا ہے ، جو موجودہ غیر مساوی بین الاقوامی نظام میں غالب مالک ہے، اسی لئے چین کی شرکت پر مبنی برکس میکانزم کے خلاف دشمنی قدرتی طور پر دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ بائیکاٹ یا بدنامی، بین الاقوامی برادری کو اب اس حقیقت کا سامنا ہے کہ برکس میکانزم نے بین الاقوامی منظرنامے میں ساختی تبدیلیوں کو تیز کر دیا ہے، اور ایک اہم پہلو گلوبل ساؤتھ کا ابھرنا ہے، جو آہستہ آہستہ مغربی طاقتوں کے کنٹرول سے آزاد ہو رہا ہے اور اسٹریٹجک خود اعتمادی اور خودمختاری کا خواہاں ہے جو اپنی بین الاقوامی حیثیت اور کردار کو از سر نو قائم کر رہا ہے۔ اس وقت برکس میکانزم مساوی تعاون اور مشترکہ ترقی کے پلیٹ فارم فراہم کرنے سامنے آیا ہے جس کی ان ممالک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے،
اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ برکس میں شامل ہونے کے لئے قطار میں کھڑے ممالک کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ہر برکس سربراہ اجلاس کے موقع پر مغرب ہمیشہ”برکس کی زوال پذیری” اور”ترقی پذیر ممالک کی تقسیم “کی کچھ پرانی دھنیں دہراتا ہے اور مغربی رائے عامہ برکس میکانزم کے نام نہاد ‘داخلی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے جبکہ برکس میکانزم کے موقف اور نوعیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے برکس کو جی سیون کے نام نہاد جیو پولیٹیکل حریف اور یہاں تک کہ عالمی امن و استحکام کے لیے ممکنہ خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ تاہم، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔آج زیادہ ممالک “برکس کے دروازے” پر دستک دینے کی امید میں ہیں، جو بلاشبہ برکس تعاون کے میکانزم کی مضبوط قوت اور اثر و رسوخ کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے، اور مغرب کے “زوال پذیر ” نظریہ کے خلاف ایک واضح جواب ہے۔