Monday, September 16, 2024
ہومشوبزچینی گیم"بلیک میتھ۔ ووکھونگ"میں تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھنے کی دلکشی

چینی گیم”بلیک میتھ۔ ووکھونگ”میں تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھنے کی دلکشی

بیجنگ :”بلیک میتھ· ووکھونگ” چین کا پہلا ٹرپل اے گیم ہے، جس کی 20 اگست 2024 کو لانچنگ کے پہلے ہی دن مجموعی طور پر 4.5 ملین سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ 23 اگست شام نو بجے تک ،یہ گیم تمام پلیٹ فارمز پر 10 ملین سے زیادہ یونٹس فروخت ہوچکا تھا ، اور بیک وقت آن لائن صارفین کی سب سے زیادہ تعداد 3 ملین تک پہنچ چکی ہے۔


23 اگست کو امریکی ڈپلومیٹ کی ویب سائٹ پر  ” بلیک میتھ: ووکھونگ  ثابت کرتی ہے کہ چینی ثقافتی سافٹ پاور ایک افسانہ نہیں ہے”کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا، جس میں دلیل دی گئی ہے کہ “ایک دن، “بلیک میتھ: ووکھونگ” کھیلنے والے بچے بڑے ہو کر چینی سیکھنے اور چین میں تعلیم حاصل کرنے کافیصلہ کریں گے۔اوراس مرتبہ  چین  نے یہ ثقافتی سافٹ پاور ورک تیار کیا ہے”.
تو،” بلیک میتھ· ووکھونگ” کی اس قدر جلد مقبولیت کے اسباب کیا  ہیں؟


سب سے پہلے، یہ عمدگی سے تیار کیا گیا ہے. گیم کے میدان میں ” تھری اے”کا مطلب   “اے لاٹ آف منی”””اے لاٹ آف ریسورس” اور “اے لاٹ آف ٹائم” ہے ،جو گیمز  تخلیق کے معیار، اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی، اور وسیع مارکیٹ اثر و رسوخ کی نمائندگی کرتے ہیں. یہ کوئی محض تفریحی چیز  نہیں ہے ، بلکہ ٹیکنالوجی، آرٹ اور کاروبار کا بہترین امتزاج بھی ہے. تھری اے گیمز نہ صرف صنعت میں اعلیٰ ترین معیارات کی وضاحت کرتے ہیں ، بلکہ دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے ذہنوں میں بہترین بینچ مارک بھی  ہیں۔


گیم  میں فنکارانہ ماحول اور حیرت انگیز  مقابلے کے مناظر کے پیچھے ، پروڈکشن ٹیم کی مہارت اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی جدت  ہے۔ رپورٹس کے مطابق بیجنگ ورچوئل ڈائنامک ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ نے گیم  کی تیاری میں آپٹی ٹریک آپٹیکل پوزیشننگ کیپچر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا  ہے۔اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حقیقی مندروں، بدھا کے مجسموں، نیز جنگلات اور چٹانوں وغیرہ کو اسکین کرکے گیم کے مناظر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ روایتی گیم پروڈکشن کے عمل میں اکثر تصویری کاپی کے ذریعے انسانی ایکشن کو بیان کیا جاتا ہے لیکن گیم ایکشن پیچیدہ ہوتا ہے اور کاپی کرنے کا طریقہ  مزید تفصیلات پیش نہیں کرسکتا۔ آپٹی ٹریک موشن کیپچر ٹیکنالوجی اداکار  کی ہر حرکت کو درست طریقے سے پکڑ سکتی ہے اور اسے گیم کریکٹر اینیمیشن میں تبدیل کرتی ہے ، جو کردار کی پیجیدہ حرکت کو پیش کر سکتی ہے اور گیم پروڈکشن کے عمل کو آسان اور تیز بھی بناسکتی ہے۔


واضح رہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ روایتی چینی ثقافت نے اس گیم  کو ایک گہرا ثقافتی رنگ  دیا ہے۔  کھیلنے والے اس گیم میں  مارشل آرٹس کی دلکشی سے بےحد لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔درحقیقت مارشل آرٹس کا مظاہرہ حقیقی اداکاروں کی جانب سے کیا جاتا ہے اور پھر موشن کیپچر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بنایا جاتا ہے ۔ لہذا اس جدید گیم میں روایتی چینی مارشل آرٹس کی اہمیت بھی کافی نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ، چین کے بڑی تعداد میں ثقافتی ورثے بھی اس گیم کے لئے مناظر کا قیمتی ذخیرہ بن چکے ہیں.غیر حتمی اعداد و شمار کے مطابق ،”بلیک میتھ-ووکھونگ” کے مناظر  میں چین کے 36 آرکیٹیکچرل شاہکار شامل ہیں۔ ان میں شہر چھونگ چھنگ کے مجسمے،شہر ہانگ چو کا مندر ،نیز دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم ترین موجودہ خالص لکڑی کا ٹاور  -پگوڈا آف فو گونگ ٹیمپل بھی شامل ہے۔ پگوڈا آف فو گونگ ٹیمپل، ایک لاکھ سے زائد لکڑی کے ٹکڑوں سے تعمیر کیا گیا تھا  اور اسے بنانے میں قدیم کاریگروں کو 140 سال لگے تھے۔اس ہزار سالہ ٹاور کی بلندی تقریباً 20 منزلوں والی ایک جدید عمارت کے برابر ہے اور  اسے اٹلی میں پیسا  ٹاور اور پیرس میں ایفل ٹاور سمیت “دنیا کے تین شاندار ٹاور” کے طور پر جانا جاتا ہے۔


ایک چینی نظم میں کہا گیا ہے کہ “اگر آپ پوچھیں کہ نہر اتنی صاف کیوں ہو سکتی ہے، تو  منبع کا خالص پانی اصل وجہ ہے “۔ درحقیقت، ووکھونگ کی مقبولیت  تہذیبوں کے تبادلے اور باہمی سیکھنے سے پیدا ہونے والی مسلسل زندگی کی عکاس بھی ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ گیم چین کے  مشہور روایتی ناولوں میں سے ایک “جرنی ٹو ڈی ویسٹ” کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے. “جرنی ٹو ڈی ویسٹ”  تھانگ سنگ کے “بدھ مت کے مقدس مقامات ” جانے کی کہانی بیان کرتی ہے۔یہ بذات خود  چین اور بیرونی ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں کی ایک کہانی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ ” بدھ مت کے مقدس مقامات ”  کے نمونہ جات شمال مغربی پاکستان اور مشرقی افغانستان میں واقع ہیں  جس میں ٹیکسلا، پشاور، سوات اور دیگر شہر شامل ہیں۔ ٹیکسلا کے کھنڈرات پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 30 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح میں ٹیکسلا بدھ مت  کا ایک مرکز کہلاتا تھا ۔ تھانگ سنگ  کا پروٹو ٹائپ، راہب ہیون سانگ ایک بار یہاں بدھ مت کا مطالعہ کرنے آیا تھا۔ جہاں تک وو کھونگ کے پروٹو ٹائپ کی بات ہے تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ چینی افسانے میں ایک آبی عفریت ہے، اور کچھ اسکالرز کا خیال ہے کہ بھارت کے افسانے میں  مشہور بندر ہنومان کی بھی  وو کھونگ  کے ساتھ بہت سی مماثلتیں ہیں۔وو کھونگ ،  پتھر سے نکلنے والا یہ بندر نہ صرف چین میں ایک عام گھریلو  نام ہے بلکہ دنیا میں بھی اس کے کافی زیادہ فینز  ہیں۔واضح ہے کہ “جرنی ٹو ڈی ویسٹ” پر مبنی متعدد ادبی تخلیقات اور گیم تیار کیے گئے ہیں ، جن میں ڈریگن بال بھی شامل ہے ، جو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول جاپانی اینیم سیریز میں سے ایک ہے۔
ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیم میں سوانا نامی ساز کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے،اور یہ ساز بھی عالمی ثقافتی تبادلوں کا ایک گواہ ہے جو تیسری صدی عیسوی میں مشرقی یورپ یا مغربی ایشیا سے چین میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت چین میں سوانا  ایک بہت مقبول ساز بن چکا ہے، اور یہاں تک کہ ایک لوک کہاوت بھی ہے کہ “ایک بار سوانا کی آواز سن کر ایسا لگتا ہے کہ  ہزار کلوگرام سونے کا خزانہ  آیا ہے  “۔


قدیم زمانے میں چینی ریشم اور چینی پورسیلن  شاہراہ ریشم کے ذریعے مغرب بھیجے جاتے تھے اور مغربی مصالحے اور موسیقی کے آلات بھی شاہراہ ریشم کے ذریعے چین لائے جاتے تھے۔اور اب، “بیلٹ اینڈ روڈ”کی مشترکہ تعمیر کرنے والے ممالک  میں  تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھنے کی کہانی جاری ہے۔ جیسا کہ چینی  صدر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ عالمی تہذیب ایک باغ ہے، “صرف ایک پھول کا کھلنا بہار نہیں ہے، بہار میں سو پھول کھلتے ہیں”۔  مختلف تہذیبوں کے مابین باہمی تبادلے اور سیکھنے سے ہی  عالمی تہذیب کا باغ سارا سال سدا بہار رہ سکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔