Sunday, September 8, 2024
ہومبریکنگ نیوزنوشکی میں قتل ہونے والے 9افراد کی لاشیں کوئٹہ پہنچا دی گئیں

نوشکی میں قتل ہونے والے 9افراد کی لاشیں کوئٹہ پہنچا دی گئیں

کوئٹہ (نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کی لاشیںہفتہ کوکوئٹہ پہنچا دی گئیں۔
تفصیلات کے مطابق ان افراد کا تعلق پنجاب کے دو شہروں منڈی بہائوالدین اور گوجرانوالہ سے تھا۔ کوئٹہ میں پوسٹ مارٹم کے بعد ان افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردی جائیں گی۔
ایس ایس پی نوشکی اللہ بخش بلوچ کے مطابق ان افراد کو مسلح شرپسندوں نے نوشکی شہر سے اندازاً چار پانچ کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں سرحدی شہر تفتان جانے والی ایک بس سے اتارا تھا اور کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد ان تمام افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
یاد رہے کہ یہ افراد کوئٹہ سے تفتان جانے کے لیے ایک مسافر بس میں بیٹھے تھے۔ اس علاقے میں شرپسندوں کی فائرنگ سے مجموعی طور پر11 افرادکو قتل کیا گیاجن میں سے دو کا تعلق نوشکی سے تھا۔
ایس ایس پی نوشکی نے بتایا کہ انھی شرپسندوں نے سلطان چڑھائی کے علاقے میں ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑی کے نا رکنے پر شرپسندوں نے گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے باعث گاڑی ایک کھائی میں گرگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ اور گاڑی کو پیش آنے والے حادثے کے باعث گاڑی میں سوار دو افرادجاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔
گاڑی پرفائرنگ سے ہلاک ہونے والے دونوں افراد کی شناخت داؤد مینگل اور صدام کے نام سے ہوئی۔ ٹیچنگ ہسپتال نوشکی کے ایم ایس ڈاکٹر ظفراللہ نے بتایا کہ ان دونوں افراد کی موت گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی جبکہ باقی افراد گاڑی کے الٹنے کے باعث زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ نوشکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے مشرق میں اندازاًڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحد جنوب میں افغانستان سے لگتی ہے۔
نوشکی کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے تاہم اس کے مختلف علاقوں میں پشتونوں کے بڑیچ سے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد نوشکی میں بھی بدامنی کے بڑے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ فروری 2022ء میں نوشکی میں فرنٹئیرکور کے ہیڈکوارٹر پر ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔ نوشکی میں ماضی میں اس نوعیت کے دیگر واقعات کی ذمہ داری بھی کالعدم بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔