اعتصام الحق ثاقب
“برکس ” دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی معیشتوں اور دنیا کا ایک چوتھائی جی ڈی پی رکھنے والے ممالک کا بلاک ہے جس میں چین،روس،بھارت ،برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں ۔22 سے 24 اگست تک جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں اس بلاک میں شامل ممالک برکس کے پندرہویں اجلاس کے لیے جمع ہو ئے ہیں۔اس اجلاس کے دوران تقریباً 50 دیگر رہنما ’فرینڈز آف برکس‘ پروگرام میں شرکت کریں گے، رواں برس اس اجلاس کا موضوع ’برکس اور افریقہ: باہمی تیز رفتار و پائیدار ترقی اور جامع کثیرالجہتی کے لیے شراکت‘ ہے
برکس کی اصطلاح 2001 میں ماہراقتصادیات جم او نیل نے اپنی رپورٹ بلڈنگ بیٹر گلوبل اکنامک برکس میں استعمال کی تھی۔اونیل نے پیش گوئی کی تھی کہ تیزی سے ترقی کرنے والے برکس ممالک 2050 تک اجتماعی طور پر عالمی معیشت پر غلبہ حاصل کریں گے۔ 2023 میں روس، بھارت اور چین دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہیں۔ تمام پانچ ممالک جی 20 کے رکن ہیں ۔
پہلا بی آر آئی سی وزارتی اجلاس 20 ستمبر 2006 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا تھا۔ روس، برازیل اور چین کے وزرائے خارجہ اور بھارتی وزیر دفاع نے اجلاس میں شرکت کی تھی اور کثیر الجہتی تعاون کو وسعت دینے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔16 جون 2009 ء کو روس میں پہلا برک سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد بی آر آئی سی رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں برکس کے اہداف کا تعین کیا گیا اور عالمی مالیاتی اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کے طریقوں کا خاکہ پیش کیا گیا۔جنوبی افریقہ نے 24 دسمبر 2010 ء کو چین کی دعوت کے بعد باضابطہ طور پر اس ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی اور یوں یہ تنظیم برک سے برکس بنی ۔ جنوبی افریقہ اب تک گروپ میں واحد افریقی ملک ہے اور واحد اضافی رکن بھی جس نے برکس میں شمولیت اختیار کی ۔
نیا ترقیاتی بینک (این ڈی بی) 15 جولائی 2014 کو برازیل کے شہر فورٹالیزا میں منعقدہ برکس سربراہ اجلاس کے دوران قائم کیا گیا تھا تاکہ برکس ممالک اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے اور پائیدار ترقیاتی منصوبوں کے لئے وسائل کو متحرک کیا جاسکے۔کثیر الجہتی ترقیاتی بینک نے 21 جولائی 2015 کو کام شروع کیا ۔ ستمبر 2021 میں بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، یوراگوئے اور مصر نے این ڈی بی میں شمولیت اختیار کی۔جنوبی افریقہ نے 2018 میں مزید توسیع کی تجویز پیش کی تھی اور اس پر بات چیت گزشتہ سال شروع ہوئی تھی۔ برکس کی توسیع اس سال کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔
یہ برکس ممالک کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت، ان کی کافی آبادی اور وافر قدرتی وسائل ہیں جو بین الاقوامی منظر نامے پر ان کے اثر و رسوخ کی بنیاد بناتے ہیں۔برازیل جنوبی نصف کرہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ روس وسائل کا ایک بہت بڑا ملک ہے ۔ بھارت زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور دنیا کی فیکٹری ہے۔ اورجنوبی افریقہ معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔
اپنے قیام کے بعد 16 برسوں میں ، برکس ممالک عالمی سطح پر اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اہمیت کے باعث ایک مثبت اور مستحکم تعمیری قوت بن چکے ہیں۔برکس میکانزم ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی بڑی تعداد سے گہرائی سے منسلک رہا ہے۔ نیو ڈیولپمنٹ بینک نے اپنی پہلی توسیع حاصل کی ہے اور مستقبل میں مزید ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے مالی معاونت فراہم کرے گااور عالمی مالیاتی نظام میں اپنی آواز اور اثر و رسوخ بھی بڑھائے گا۔
رواں سال برکس کے چیئرمین ملک کے طور پر، چین برکس میں توسیع کی فعال حمایت کر رہا ہے اور “برکس پلس” تعاون کو وسعت دے رہا ہے۔ چین تمام برکس فریقوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ رکنیت کی توسیع کے معاملے پر بات چیت جاری رکھیں، اتفاق رائے کی بنیاد پر رکنیت کی توسیع کے لیے معیارات اور طریقہ کار وضع کریں اور مزید ہم خیال شراکت داروں کی “برکس فیملی” میں شمولیت کی توقع رکھیں ۔تقریباً 40 ممالک نے اس بلاک میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ ان میں سے 23 ممالک نے برکس کے رکن بننے کے لیے باضابطہ طور پر درخواستیں دی ہیں۔ بہت سے ممالک کو برکس خاندان کا رکن بننے کی امید ہے، جو عالمی مسائل کے حل میں برکس ممالک کی قیادت پر عالمی برادری کے اعتماد کا ثبوت ہے۔ جوہانسبرگ سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان مقامی کرنسی کے تصفیے کو مستحکم کرنے پر بات چیت کی بھی توقع ہے جس میں ایک ،مشترکہ ادائیگی کا نظام بھی ہے۔ اگر یہ نظام لاگو ہوتا ہے، تو یہ برکس ممالک کے اقتصادی، تجارتی اور مالیاتی تعاون کے لیے “ایکسلیٹر بٹن” ثابت ہو گا۔ ایک نئی قسم کے تعاون کے میکانزم کی حیثیت سے، برکس ایک اہم قوت بن گیا ہے جو جنوب-جنوب تعاون کی قیادت کر رہا ہے اور عالمی حکمرانی کو فروغ دے رہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے، برکس ممالک ایک دوسرے کے اقتدار اعلی، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا احترام کرتے ہیں اور طاقت کی سیاست، سرد جنگ کی سوچ اور گروہی تصادم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے، 2022 میں عالمی بینک میں پانچ برکس ممالک کی ووٹنگ کی طاقت 14.06 فیصدہوگئی ہے ، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں کل حصہ 14.15 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ صحت عامہ کے شعبے میں، برکس ویکسین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کیا گیا ہے، اور اس وبا سے لڑنے کے لیے “برکس لائن آف ڈیفنس” مشترکہ طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد پر عمل کرتے ہوئے، برکس ممالک نے کثیرالجہتی کا تحفظ کرنے اور عالمی حکمرانی کے نظام میں اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ آواز بلند کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام بین الاقوامی میڈیا کا ماننا ہے کہ برکس ممالک مغربی تسلط والے بین الاقوامی نظام سے باہر سوچنے کا ایک نیا طریقہ اور اہم روشن خیالی فراہم کر نے جا رہے ہیں ۔