ہزیمت ، اذیت اور ڈھکوسلے
رضی الدین رضی کا اختصاریہ
16دسمبر اگرچہ پاکستان کی تاریخ کے المناک دنوں میں سے ایک ہے۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے اور ایسے دنوں کو معمول کے مطابق روایتی فقروں ،جملوں اور بڑھکوں کے ساتھ مناتے ہیں۔یہ دن 49برسوں سے ہمارے لیے ہزیمت کا باعث تھااور گزشتہ چھ برسوں سے اس میں ہزیمت کے ساتھ اذیت بھی شامل ہوگئی ہے۔دکھ صرف اس بات کا ہے کہ جیسے ہم باقی مذہبی اور قومی دن اور تہوارمناتے ہیں اورایسے مواقع پر ہمارے چھوٹے بڑے لیڈر اور گلی کوچوں کے دانشور اپنی نمود و نمائش کرتے ہیں۔ تصویر مافیا سرگرم ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگا کر فرض پورا کیا جاتا ہے۔بالکل اسی طرح 16دسمبر کوبھی منایا گیا۔ہمارے لفظوں میں سے تاثیر ختم ہوچکی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم متحد ہیں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔عین اسی وقت ہم لوگوں کو منتشر اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔جب کرپٹ لوگوں کو کٹہرے میں لانے کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ کرپشن کے الزام میں کٹہرا صرف کمزور لوگوں کامقدر بنے گا۔ 200روپے کابل نہ دینے والے بجلی یا گیس کے نادہندہ کے میٹر کاٹ دیئے جائیں گے اور چوری کی بجلی اور گیس پر فیکٹریاں چلانے والوں کی جانب کوئی آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھے گا بلکہ ان میں سے بہت سوں کو اہم عہدوں پر فائز کردیا جائے گا۔جس ملک میں ڈنگر ڈاکٹر کو ڈی جی آئل اور چوکیدار کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنادیا جائے وہاں اورکسی بات پر گفتگو کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ایسے میں 16دسمبر کوسقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کے سانحے کی تحقیقاتی رپورٹیں منظرعام پر لانے کی گفتگو ہی بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن کیا کریں ہمیں اب بے معنی زندگی میں سے ہی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آئین ،قانون ،احتساب سب کچھ محص ڈھکوسلا ہے اور ہم اس ڈھکوسلوں کے بھی عادی ہوچکے ہیں۔