Monday, December 16, 2024
ہومپاکستانایم کیو ایم کی ایک بار پھر اتحادی حکومت سے راہیں جدا کرنے کی وارننگ

ایم کیو ایم کی ایک بار پھر اتحادی حکومت سے راہیں جدا کرنے کی وارننگ

الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے دھڑوں نے کہا کہ ووٹر لسٹوں میں ہماری نمائندگی کو آدھا کر دیا گیا ہے، کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو قبول نہیں کیا جائے گا، فاروق ستار نے دعوی کیا کہ اس احتجاج کے بعد سب ایم کیو ایم کا حصہ ہوں گے۔
حلقہ بندیوں کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر کے باہر احتجاج اور مظاہرہ کیا گیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور رہنماوں نے بھرپور شرکت کی۔ مظاہرے میں پاک سرزمین پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، تنظیم بحالی کمیٹی کے رہنماشریک ہوئے۔ سربراہ پی ایس پی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کارکنان کے ساتھ شریک ہوئے۔
تنظیم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے احتجاج اور مظاہرے سے خطاب میں دعوی کیا کہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے، اس لئے ایم کیو ایم انتخابات کا بائیکاٹ کردے، انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ اس احتجاج کے بعد سب ایم کیو ایم کا حصہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن دھاندلی زدہ اور ہم سے چھینے جا چکے ہیں۔ ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار میری ماوں بہنوں کا مظاہرہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے جانب سے غیر منصفانہ حلقہ بندیوں کے خلاف آج ہم نے مظاہرہ کیا ہے، پاکستان کی پالیسی بنانے والوں کو حقیقت آشکار کرنے کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ کی سب سے بڑی جیری مینڈرنگ اور پری پول رگنگ یہاں کی گئی ہے، اس شہر کے تمام زبانیں بولنے والوں کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے، آج کا یہ مظاہرہ شہری سندھ کہ سیاست کے ایک نئے سفر کا آغاز ہے، کہیں 90 ہزار کا حلقہ ہے تو کہیں 15 ہزار کا، یہ الیکشن جھرلو ہے، کراچی کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے تسلط کو مستحکم کرنے کی سازش ہے، مہاجر عوام اس سازش کا کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مہاجرعوام کے لئے آج یہ خوشی کا موقع ہے سارے مظلوم ایک جگہ جمع ہیں۔فاروق ستار کے مطابق یہ ایک تاریخی مظاہرہ ہے، غیر منصفانہ حلقہ بندیاں ظلم ہے، آج کا احتجاج ایک نئے سفر کا آغاز ہے، مردم شماری میں ہمارے ساتھ ہاتھ ہوا، آرٹیکل 140 اے میں ہمیں پاکستانی شہری کا حق نہیں دیا گیا۔ دوران احتجاج کے شرکا کی جانب سے شرم کرو شرم کرو ڈوب مرو ڈوب مرواور جئے مہاجر کے نعرے بھی لگائے گئے۔
مظاہرے سے خطاب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہماری قربانیوں کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، ووٹر لسٹوں میں ہماری نمائندگی کو آدھا کر دیا گیا، کراچی کے دھاندلی زدہ بلدیاتی انتخابات کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
سابق میئر کراچی مصطفی کمال نے کہا کہ کراچی، حیدر آباد لاوارث نہیں، اس کے وارث زندہ ہیں، کراچی ٹھیک ہوگا تو پاکستان ٹھیک ہوگا، یہ منصوبہ بندی کے تحت شہر پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں، کراچی پاکستان چلانے والوں کا شہر ہے، شہر کی 70 لاکھ آبادی کو کم گنا گیا، یہاں کے مسائل کو حل کرنا وزیراعلی سندھ کی ذمہ داری ہے، کراچی 70 فیصد ریونیوپاکستان کو دیتا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اگر کراچی آپ کیخلاف ہوگیا تو بلاول بھٹو وزیراعظم نہیں بن سکتے۔سربراہ پی ایس پی نے یہ بھی کہا کہ کراچی والوں کو ووٹ کا صحیح حق دینا پڑے گا، جمہوریت کو سب سے بڑاخطرہ انہی لوگوں سے ہے، یہ کہتے تھے ہم نے وفاق سے صوبوں کے لیے وسائل لیے، صوبائی خود مختاری یوسی اور یونین کونسل تک جانی چاہیے تھی، ووٹ کے مسائل کو حل ہی نہیں کیا جاتا، ہم نے بہت مشکل سے اس شہر میں امن قائم کیا ہے، یہ احتجاجی مظاہرہ صرف ٹریلر ہے۔
سابق میئر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کو احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، آپ دور اندیشی سیاست دان ہیں، آپ نے ابھی سے بلاول کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کردی ہے، اگر آپ کا یہ خواب ہے تو کراچی والوں کو ساتھ رکھنا پڑے گا، اگر کوئی وزیر آپ کو لڑوانا چاہتا ہے تو وہ آپ کا دوست نہیں ہے۔ چند گھنٹوں کے نوٹس پر کارکنان آئے، جن لوگوں کی نظر کراچی پر سالوں سے تھی، آج کا مجمع انہیں بتانا چاہتا ہے تمہارا منصوبہ چکنا چور ہوگیا، ایک رحمان ملک کی کال پر سارے کام کروالیتے تھے، اب یہاں کوئی ڈیل ہونے والا نہیں ہے، یہاں کا وزیراعلی کچرے کا گٹر لائنوں کا انچارج ہے، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، آٹھارویں ترمیم کیاختیارات عوام کیبجائے وزیراعلی ہاس چلے گئے، 1300 ارب روپے کا مالک ایک آدمی ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں موبائل چھیننے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، پاکستان چلانے والوں کو آواز لگاتا ہوں، کراچی والوں کو مار کر پاکستان امن سے چلتا رہے گا، کراچی والوں کی زندگی چھنے گی توپاکستان میں بھی سکون نہیں رہ سکے گا۔
ایم کیو ایم مظاہرے سے فیصل سبزواری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہے شفاف الیکشن کروانا، شہری علاقوں میں پہلے جعلی مردم شماری سے شفافیت کو مشکوک بنایا گیا، من پسند ووٹر لسٹ بناکر انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھے، 2013 میں ایک چیف جسٹس کو خیال آیا تھا کہ آدھی حلقہ بندیاں تبدیل کردو، وہ اس لئے کہ ان حلقوں میں ایک زبان بولنے والوں کا ووٹ ہے، جو صوبائی حکومت نے کیا سو کیا مگر سوال ہے الیکشن کمیشن سے ہے، ہم عدالتوں میں گئے الیکشن کمیشن میں گئے شنوائی نہیں ہوئی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔