Saturday, July 27, 2024
ہومکالم وبلاگزارادوں سے اداروں تک

ارادوں سے اداروں تک

(حصہ اول)


تحریر وزیر اشفاق


انسان اپنی علم ودانش اور بساط کے مطابق اپنے اور اپنے معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرنے کی کوشش میں مصروف رہتاہے۔ اس میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتاہے کہ ارد گرد کے لوگ انکے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور کیا کچھ کہتے ہیں۔ ابدا میں اکیلا نام پیداکرنے کی کوشش کرتاہے پھر دھیریدھیرے اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتاہے اور اپنے عزیزوں اور رشتہ دارون کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش کرتاہے۔ جب یہ کمبی نیشن بھی قابل اعتماد نہیں رہی تو اپنے ہم نظر وہم فکر دوستوں کے ساتھ خدمت خلق کرناشروع کرتاہے۔ اب اس گروپ میں کیونکہ نسبتا ہم فکر اور مقصدیت کے حامل گروہ کام کرتے ہیں اس وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مقصدیت کے حصول کیلئے ایساعملی کام سرانجام دیاجائے جس سے مشترکہ طورپر تعین کردہ مقصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے ہوے جس نتیجے کیلئے کام کر تے ہیں وہ بھی نظر آجائے۔ ہم فکر گروہ کامشترکہ کام میں بہتر نتائج اورشفافیت کوبرقرار رکھنے کیلئے ہروقت مل بیٹھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو انسان اداروں کو بنانے کی طرف مائل ہوجاتاہے۔ اداروں کو بنانے کے عملی میں ان اداروں کیلئے دنیاں میں موجود بہترین نظام کو پسند کیاجاتاہے۔ ابتدا میں تو صرف اداروں کی موجود گی کو ہی کافی سمجھاجاتاہے۔ جیسے کہ اس وقت گلگت بلتستان میں موجود سرکاری ادارے۔ لیکن رفتہ رفتہ اداروں کی بہتری اور معیار کوبہترین بنانے پر توجہ دی جاتی ہے مثال کے طورپر گلگت بلتستان میں اچھے اداروں میں آغاخان کے ادارے شامل ہیں۔ جن میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کئے جاتے ہیں۔ آپکو بہت کم ایسے مواقع دیکھنے کو ملیں گے کہ ان اداروں میں وقت پردفتر میں حاضری نہ ہوتاہو اور قوت سے پہلے دفترسے نکل جاتے ہوں۔ اس کے برعکس حکومتی اداروں جن میں قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدآمد نہیں ہورہاہے۔ مثال کے طور پر آپ صبح پہلی فرصت میں دفتروں کا چکر لگائیں تو پتہ چلے گا کہ چوکیدار بھی نہیں پہنچتے ہیں، آج کل تو دفتروں سے غیرحاظر رہنا فیشن سمجھاجاتاہے اور گیارہ بجے کے بعد دفتروں مین حاضری اور تین بجے سے پہلے بچون کا بہانہ کر دفتروں سیرفوچکر ہونا معمول کی بات ہے۔ اس میں جہاں تک ملازمین اس کے زمہ دار ہیں وہاں عوام کی بھی غلطیاں ہیں وہ اپنے ملازمین کو دفتروں میں حاضر کرانیکیلئے شکایات یا احتجاج نہیں کرتے ہیں۔ ابتدا میں اداروں کی کارکردگی نہیں دیکھی جاتی ہے جوں جوں قوت گزرتاہے توں توں اداروں کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے جانے لگتے ہیں۔ جب اداروں کی اپنی بقا کو خطرہ لاحق ہوتاہے تو ادارے کے ملازمین اپنی نوکریوں کی خاطر ہی سہی ادارے کی بہتری کیلئے کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے گلگت بلتستان کے سرکاری ادارے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یاتو کارکردگی بہتر کرے یا ان اداروں کو ختم کرناہی بہتر ہوگا۔ اداروں کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہاں اتنا کہاجا سکتاہے کہ اس وقت گلگت بلتستان کو کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جسے فخر کے ساتھ کہاجاسکے کہ ایسا ہونا چاہئے۔ میرے خیال کے مطابق سارے ادارے اپنی آخری ہچکی لے رہے ہیں یہ ہچکی یاتو ان اداروں کی ہے یا پھر عوام کی دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔