Saturday, July 27, 2024
ہومکالم وبلاگزسپریم کورٹ کو سیاست کا اکھاڑا نہ بنایا جائے

سپریم کورٹ کو سیاست کا اکھاڑا نہ بنایا جائے

حکومت کے نمائندوں کو اس بات کی داد تو دینا پڑے گی کہ وہ کسی غیر موافق رائے پر بھی بدمزہ نہیں ہوتے بلکہ شکست میں بھی فتح کے مزے لینے کا فن جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے سینیٹ انتخابات کے بارے میں صدارتی ریفرنس کو مسترد کردیا گیا ۔ پانچ میں سے چار ججوں نے رائے دی ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے تحت ہی منعقد ہوسکتے ہیں۔ یعنی خفیہ بیلیٹ کے طریقہ کو کسی آئینی ترمیم کے بغیر ترک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حکومت ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اس طریقہ کو تبدیل کرنا چاہتی تھی۔
صدارتی ریفرنس پر رائے دینے والے بنچ میں شامل جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے ساتھیوں سے اس نکتہ پر اختلاف نہیں کیا کہ سینیٹ انتخاب کو خفیہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کا مؤقف ہے کہ آئین کی شق 186 کے تحت اس صدارتی ریفرنس میں کوئی قانونی سوال سامنے نہیں لایا گیا لہذا اسے جواب دیے بغیر واپس کیا جاتا ہے۔ جسٹس آفریدی کے علاوہ چیف جسٹس گلزار احمد کی قیادت میں باقی فاضل جج اپنے مکمل دلائل تفصیلی فیصلہ میں سامنے لائیں گے۔ تاہم مختصر رائے سامنے آنے کے بعد سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں بےیقینی ختم ہوگئی ہے۔ اب یہ طے کردیا گیا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ اس طریقہ کو تبدیل کرنے کےلئے آئینی ترمیم نہیں کرے گی، اس وقت تک یہ انتخاب خفیہ بیلیٹ کے ذریعے ہی ہوسکتےہیں۔

عدالتی رائے سامنے آنے کے فوری بعد حکومت اور اپوزیشن کے نمائیندوں نے اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس رائے میں یہ لکھ کر کہ ووٹ کا اخفا ، حتمی اور دائمی نہیں ہے دراصل حکومتی مؤقف کو تسلیم کرلیا ہے ۔ اس رائے کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ دراصل خفیہ ووٹنگ کے طریقہ کار کی خرابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پابند کررہی ہے کہ وہ دھاندلی یا ووٹوں کی خرید و فروخت کے طریقہ کو روکنے کے لئے سینیٹ انتخاب میں دیے گئے ووٹوں کو تاقیامت خفیہ قرار نہیں دے سکتا۔ اور ضرورت پڑنے پران کی ’پڑتال ‘کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے اس ریفرنس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سینیٹ انتخاب آئین کی شق کے تحت خفیہ بیلیٹ سے ہی ہوسکتے ہیں۔ اور اس انتخاب میں دیے جانے والے ووٹوں کا کبھی سراغ نہیں لگایا جاسکتا کہ کس نے کس کوووٹ دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیاہے کہ ووٹ کا اخفا حتمی نہیں ہے کیوں کہ اس بارے میں سپریم کورٹ 1967 میں نیاز احمد بمقابلہ عزیزالدین کیس میں یہ اصول طے کرچکی ہے۔ یہ حوالہ دیتے ہوئے مختصر فیصلہ میں صراحت کی گئی ہے کہ ’ گو کہ خفیہ ووٹنگ کا نفاذ ہی اہم اور آئیڈیل ہے لیکن انتخابی عمل کی عملی ضرورتوں کے پیش نظر اس سے گریز بھی کیا جاسکتا ہے‘۔ اس مختصر رائے میں خفیہ ووٹنگ کے بارے میں مزید تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس حوالہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر کو کسی معذوری کی وجہ ووٹ دینے میں مدد کی ضرورت ہو تو اسے عملی مجبوری سمجھا جائے گا اور اخفائے ووٹ کا بہانہ بنا کر کسی ووٹر کو رائے دینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ سیاسی طور سے دیوار سے لگی حکومت کو اس ایک سطری حوالہ میں یہ امید دکھائی دینے لگی ہے کہ سپریم کورٹ نے دراصل یہ اصول تسلیم کرلیا ہے کہ دھاندلی کی روک تھام کے لئے بعد از وقت ووٹ کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

خفیہ ووٹنگ کے اس ایک نکتہ کو صرف کابینہ کے ارکان اور وزیر اعظم کے مشیروں نے ہی اپنی شاندار اصولی فتح نہیں قرار دیا بلکہ اٹارنی جنرل نے خالد جاوید خان نے بھی ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے دراصل ووٹ کو ہمیشہ کے لئے خفیہ نہ رکھنے کا حکم دیا ہے اور اب الیکشن کمیشن آئینی طور سے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کا پابند ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخاب میں بیلیٹ پیپرز پر سیریل نمبر شائع کرنے یا نشان لگانے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ سپریم کورٹ کی رائے پر ہو بہو عمل ہوسکے۔ اٹارنی جنرل کی یہ رائے ان دلائل کے مطابق ہے جو انہوں نے ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کے گوش گزار کئے تھے اور جن کا فی الحال سپریم کورٹ کی تحریری مختصر رائے میں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔ البتہ آئین کی شق 218 کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل منصفانہ، شفاف اور قانون کے مطابق بنانے کی یاددہانی کروائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اس مقصد سے جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال میں کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے تحت خفیہ ووٹنگ سے کروانے کی حتمی رائے کے بعد ایک ضمنی حوالہ کو بنیاد بنا کر حکومت یا اٹارنی جنرل، اگر الیکشن کمیشن سے بیلیٹ پیپرز کو مارک کرنے یا ان پر سیریل نمبر لگانے پر اصرار کریں گے تو یہ معاملہ پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ اور حتمی طور سے ایک بار پھر سپریم کورٹ کو ہی یہ واضح کرنا پڑے گا کہ اس کی رائے کا ’اصل مفہوم‘ کیا تھا۔ تاہم بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ صدارتی ریفرنس مسترد ہونے کے بعد اس ہزیمت کو اپنی کامیابی ظاہر کرنے کے لئے حکومتی نمائیندے بڑھ چڑھ کر عدالت عظمیٰ کی رائے کو اپنے مؤقف کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ سے یہ ’مشورہ‘ طلب کیا گیا تھا کہ کیا سینیٹ انتخاب آئین کی شق 226 کے تحت ہوگا یا اسے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت بھی کروایا جاسکتا ہے؟ اس سوال پر سپریم کورٹ کی رائے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ انتخاب آئین کے تحت قانون کے مطابق ہوں گے۔ حکومت اس فیصلہ کی توقع نہیں کررہی تھی، اسی لئے سینیٹ انتخاب اوپن ووٹنگ یا ہاتھ کھڑا کرکے کروانے کے لئے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈی ننس بھی جاری کردیا گیا تھا۔ اب یہ آرڈی ننس غیر مؤثر ہوچکا ہے لیکن حکومت کا یہ اصرار جاری ہے کہ اس کا مؤقف مان لیا گیا ہے۔
اس بیان بازی کی اصل وجہ سیاسی ہے۔ سینیٹ انتخاب کے حوالے سے تحریک انصاف میں سب سے زیادہ اختلاف رائے سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ارکان اسمبلی پر اعتماد نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں چوہدری پرویز الہیٰ کے ذریعے بلامقابلہ سینیٹر منتخب کروانے کا اہتمام کیا گیا۔ تاکہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی مخالفت کی وجہ سے ارکان اسمبلی تحریک انصاف کے امیدواروں کے خلاف ووٹ نہ دیں۔ بلوچستان میں تو مضحکہ خیز حد تک افسوسناک صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔ تحریک انصاف نے عبدالقادر کو پارٹی ٹکٹ دے کر صوبے سے آنے والےاحتجاج کے بعد یہ ٹکٹ واپس لے لیا تھا لیکن عبدالقادر نے آزاد امید وار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرواکے حکومت کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل کرلی ہے۔
چند روز پہلے تحریک انصاف کا امید وار بلوچستان عوامی پارٹی کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اب تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے عبدالقادر کو ووٹ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے وزیر اعظم، بلوچستان میں سینیٹ انتخاب کے لئے ووٹوں کی قیمت میں مسلسل اضافہ کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ ان الزامات اور پارٹی کی حکمت عملی کے بعد نہ جانے عمران خا ن کیسے اپنی دیانت اور اپوزیشن کی بدنیتی ثابت کریں گے۔ موجودہ سینیٹ انتخاب میں ابھی تک اپوزیشن کی طرف سے ووٹ خریدنے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی البتہ سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اس ماحول میں حکومت کے خلاف آنے والی سپریم کورٹ کی رائے سے اپوزیشن ، حکمران اتحاد میں شامل ناراض ارکان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی نمائیندے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرکے بے یقینی کا شکار ارکان اسمبلی کو ’خوفزدہ‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل کو اس موقع پر الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخاب میں بیلیٹ پیپرز کی مارکنگ کا مشورہ دینے کی بجائے یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ووٹروں کو ہراساں کرنا بھی غلط ہے اور الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں کوئی دوررس تبدیلی نہیں لائے گی البتہ حکومت اور اپوزیشن اسے سیاسی مقاصد کے لئے بھرپور طریقےسے استعمال کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اس صورت حال کا قبل از وقت اندازہ ہونا چاہئے تھا ۔ خفیہ ووٹنگ کا آئینی اصول واضح کرتے ہوئے اس بارے میں ابہام نہ پیدا کیا جاتا تو یہ عدالتی رائے پہلے سے شدید سیاسی بحران میں غیر ضروری اضافہ کا سبب نہ بنتی۔ سپریم کورٹ کے پاس آئینی شق 226 کی موجودگی میں سرکاری پوزیشن کی حمایت کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے متعدد ماہرین قانون یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت میں معاملہ کو طول دینے اور 20 سماعتوں کے دوران متنوع ریمارکس کے ذریعے بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔
سیاست میں اداروں کی مداخلت کا معاملہ محض اسٹبلشمنٹ کی زور زبردستی تک محدود نہیں ہے۔ ملکی عدلیہ بھی اس بارے میں مثالی کردار کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ماضی میں متعدد مواقع پر سپریم کورٹ نے غیر آئینی اقدامات کی ’غیر آئینی و غیر اخلاقی‘ توثیق کا اہتمام کیا اور بعد میں کبھی اس پر شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ آئین کا سرپرست ادارہ ہونے کے باوجود گاہے بگاہے سپریم کورٹ کی طرف سے یہ اشارے سامنے آتے رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاسی انتظام میں خود کو اہم فریق کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو اداروں کے درمیان مکالمہ و افہام و تفہیم کو آگے بڑھنے کا واحد راستہ بھی قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ جب تک قومی منظر نامہ میں صرف قانون کے نگہبان ادارے کے طور پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کرے گی تو سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کی خواہش کا اظہار سامنے آتا رہے گا۔ یوں پاکستان میں پارلیمنٹ کبھی مکمل طور سے خود مختار نہیں ہوسکے گی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔