Friday, October 18, 2024
ہومپاکستانرجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون اور رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انفارمیشن کمیشن نے اس کورٹ کے بارے میں ایک آرڈر پاس کیا جسے چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس عدالت نے رجسٹرار کو کہا کہ معلومات فراہم کی جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ آپ اس عدالت کے پاس آئے ہیں کہ معلومات نہیں دینا چاہتے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت قانون اور رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور درخواست گزار شہری عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس کیس میں وزارت قانون کیسے فریق ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت قانون تمام اداروں کے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، اسی وجہ وزارت قانون بھی فریق بن سکتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں فریق بننے کے لئے وزارت قانون نے سپریم کورٹ سے اجازت مانگی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت قانون نے اس کیس میں فریق بننے کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے اجازت لی گئی۔ وفاق کے نمائندے کے حیثیت سے میں رجسٹرار سے نہیں پوچھ سکتا کہ یہ آپ نے ذاتی اجازت دی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں آپ رٹ نہیں دائر کرسکتے، کیونکہ آپ متاثرہ فریق نہیں ہیں۔ جب تک آپ عدالت کو مطمئن نہیں کرتے آپکی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔ جس سب ایکٹ کی آپ بات کررہے ہیں تو کیا یہ عدالت آئندہ کے لئے واضع کردے کہ رٹ کے لیے متاثر ہونا ضروری نہیں؟ پھر آپ سپریم کورٹ اور رجسٹرار سپریم کورٹ کے درمیان ایک لائن کھینچ لیں۔ اس عدالت میں بہت ساری غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں ہیں اور اس ہم نے انکوائری شروع کی ہے۔ ساری بھرتیاں تو رجسٹرار آفس کرتا ہے تو زمہ دار کون ہوگا ہائی کورٹ یا رجسٹرار آفس ؟ پہلے یہ تو طے کرلیں کہ رجسٹرار متاثر ہوسکتا ہے سپریم کورٹ نہیں۔ کوئی بھی سٹیٹ انسٹی ٹیوشن متاثرہ نہیں ہوسکتے۔ درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں رجسٹرار آفس کے بارے میں معلومات مانگی ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اگر درخواست گزار نے رجسٹرار آفس کے بارے میں معلومات مانگی ہے تو کیس یہی ختم ہوتا ہے۔ درخواست گزار یہ معلومات مانگتے ہیں جو سپریم کورٹ سے متعلق ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے چیف جسٹس یا دیگر ججز سے متعلق معلومات تو نہیں مانگیں؟ درخواست گزار کی معلومات ایڈمنسٹریٹشن آفس سے متعلق ہے جوڈیشری سے متعلق نہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 19 اے پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کونسی عدالتیں ہیں جو فیڈرل لا کے تحت بنی ہیں؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ انسداد دہشتگری عدالت، بینکنگ کورٹ سمیت تقریبا 40 عدالتیں فیڈرل لا کے تحت بنی ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ بھی تو فیڈرل لا کے تحت بنائی گئی۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ فیڈرل لا کے تحت نہیں بنی، ورنہ پارلیمنٹ نے تو تہس نہس کرنا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی کچھ نہیں کرتا ایسا، جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو پہلے میرے سے گزر کر کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نہیں ہم آپ کو آگے نہیں ہونے دیں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر درخواست خارج ہوتی ہے تو درخواست گزار کہاں جائے گا؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ ہی جائے گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کیسے جاسکتا ہے، سپریم کورٹ تو اس کیس میں فریق ہے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کررہی، اور نہ ہی کچھ چھپانے کو ہے۔ پاکستان میں پانچ ہائی کورٹس ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ رائے ہیں۔ ہم اس عدالت میں ترمیم کرنے کے لئے آئے ہیں۔ عدالت یہ وضع کرے کہ معلومات دینی چاہیے یا نہیں۔ دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی آرمڈ فورسز کے بارے معلومات لے سکتا ہے؟ آرمڈ فورسز ادارے آئینی ادارہ ہے یا کسی قانون کے تحت بنائے گئے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمڈ فورسز کے ادارے قانون ہے تحت بنے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کل کو اگر پارلیمنٹ اس ہائی کورٹ کو لا سے ختم کرے تو ججز کہاں جائیں گے؟ اسی کمیشن نے اس کورٹ کے بارے میں ایک آرڈر پاس کیا جسے چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس عدالت نے رجسٹرار کو کہا کہ معلومات فراہم کی جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ آپ اس عدالت کے پاس آئے ہیں کہ معلومات نہیں دینا چاہتے۔ آپ سپریم کورٹ رجسٹرار سے معلومات لیکر درخواست گزار کو دے دیں۔ عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کیوں جاننا چاہتے ہیں؟ درخواست گزار نے جواب دیا کہ کسی بھی جمہوری نظام میں شہری کو ہر قسم کی معلومات ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 19 اے میں عوامی اہمیت کی بات ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالتوں کے ایڈمنسٹریٹیو آفسز کس قانون کے تحت بنتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس رولز آف پروسیجر کے تحت بنتے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔