گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر شائع کرنے پر شروع کیے گئے توہین عدالت کے مقدمے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ عدالت اظہار آزادی کی روشنی میں فیصلہ کرے گی اور آرٹیکل 19 سے نہیں ہٹے گی۔پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ بیان حلفی کی اخبار میں اشاعت مرکزی معاملہ نہیں بلکہ ایک ثانوی معاملہ ہے ۔چیف جسٹس نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)کے عدالتی معاون ناصر زیدی کو یقین دلایا کہ یہ اب توہین عدالت کا کیس نہیں بلکہ کھلی انکوائری ہے تاکہ اس عدالت کے ججز کے حوالے سے جو شکوک پیدا کئے گئے ہیں انہیں دور کیا جا سکے۔سماعت کے دوران رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی، جنگ گروپ کے انصار عباسی اور عامر غوری کے علاوہ ماہر قانون ریما عمر اور صحافی ناصر زیدی بطور عدالتی معاونین پیش ہوئے۔عدالت کو بتایا گیا کہ طبعیت کی خرابی کے باعث اٹارنی جنرل خالد جاوید پیش نہیں ہو سکتے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لطیف آفریدی ایڈووکیٹ سے کہا کہ بیان حلفی ابھی سیل کر رکھا ہے آپ چاہتے ہیں تو منگوا کر اسے کھول سکتے ہیں۔ ابھی کھولنا چاہتے ہیں یا بعد میں، آپ اسے خود ہی اٹارنی جنرل کی موجودگی میں کھولیں۔عدالت نے رانا شمیم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل مانتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپا ہے وہ ان کے بیان حلفی کیمطابق ہے جس پر لطیف آفریدی نے تصدیق کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر اب عبوری سماعت رکھ لیں گے اور اگر آپ عدالت کو قائل کر لیں گے کہ آپ کے بیان حلفی کے متن سے عدالت کے ججوں پر شکوک و شہبات پیدا نہیں ہوئے تو ہم اس کیس کو خارج بھی کر دیں گے۔ ہم کھلے دل سے کیس سن رہے ہیں۔وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ ان کے موکل نے اپنے بیان حلفی کو لیک کیا نہ کسی کو دیا ہے جس طرح آپ نے کہا کہ یہ ہماری امانت ہے تو اس پر بڑے مسئلے ہوں گے اس کے لیے انکوائری کرنی ہو گی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اوپن انکوائری ہی ہے آپ کے موکل نے اس عدالت پر شکوک پیدا کیے ہیں یا تو آپ کہیں کہ اس ہائیکورٹ کے جج پر کوئی انگلی اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ عدالت کو قائل کر سکے کہ ان حالات میں اس پر آگے نہیں جانا چاہیے تو میں کھلے دل سے قبول کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس بیان حلفی سے اس عدالت پر سوال اٹھے ہیں۔ یہ عدالت صحافی سے اس کی خبر کا سورس نہیں پوچھے گی حالانکہ برطانیہ میں مثالیں ہیں مگر ہم سورس نہیں پوچھیں گے۔ لیکن جو عوام میں تاثر گیا ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ اگر اس میں سچائی ہے تو پھر ہم اس پر کارروائی بھی کرنے کے لیے تیار ہیں مگر سب کچھ قانون کے مطابق ہو گا تب ہی عوام کا اعتماد بحال ہو گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رانا شمیم نے یہ بھی تاثر دیا کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا، ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟چیف جسٹس نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی مفاد عامہ کیخلاف آ جائے تو پھر بات مختلف ہوتی ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی بیان حلفی بنا لے اور کسی مقصد کے لیے اخبار استعمال ہوجائے، اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے، عدالتوں کا پرابلم یہ ہے کہ ججز پریس کانفرنسز نہیں کر سکتے، پریس ریلیز نہیں دے سکتے۔عدالت نے اس موقع پر واضح کیا کہ انصار عباسی صاحب کی طرف سے نجی ٹی وی کی غلط رپورٹنگ کے حوالے درخواست آئی ہے جس کو دیکھ کر لگتا ہے اس عدالت کی کچھ آبزرویشن غلط رپورٹ ہوئی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے بھی عدالت کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کا معاملہ اٹھایا جس پر چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ یہ ایک واقعہ تھا جو عدالت کے نوٹس میں لایا گیا اس حوالے سے درخواست بھی آئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی پریس ریلیز میں کسی کا نام نہیں لکھتے اس لیے نہیں لکھا گیا تھا، وہ صرف ایک نے ہی غلط رپورٹ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے انصار عباسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی درخواست میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ثاقب بشیر سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہائی کورٹ کے رپورٹرز کی وہ پہلے بھی تعریف کر چکے ہیں آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں۔صحافی ناصر زیدی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تین عدالتوں کے فیصلے مثال ہیں کہ اظہار رائے کے کیسز میں توہین عدالت کی کاروائی نہیں ہوتی۔ناصر زیدی نے کہا کہ ماضی میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد آرمی چیف نے وسیم سجاد کے زریعے اس وقت کے چیف جسٹس کو پیغام بھیجا تھا کہ حکومت کو بحال نہیں کرنا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں ہر کیس میں حالات مختلف ہوتے ہیں۔ یہ عدالت یقین دہانی کراتی ہے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کی حامی ہے اور اس حوالے سے فیصلے بھی دئیے گئے ہیں جس پر ناصر زیدی نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں کہ اس عدالت نے اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ کیا ہے۔انصار عباسی نے وضاحت کی انہوں نے ایک چیف جج کی طرف سے ایک سابق چیف جسٹس کے خلاف بیان حلفی کو رپورٹ کیا۔عدالتی معاون ریما عمر پہلی بار عدالت میں پیش ہوئیں اور اپنے دلائل دینا چاہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی کیس میں فرد جرم پر سماعت ہونی ہے اگر عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر اس وقت آپ عدالت کی معاونت کریں گی۔ریما عمر نے کہا کہ دنیا میں توہین عدالت کے حوالے سے جو حقائق ہیں وہ سامنے لانا چاہتی ہیں۔ کیا جمہوری سوسائٹی میں توہین عدالت کی کاروائی ضروری ہے؟اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم کھلے ذہن سے کیس سن رہے ہیں تو آپ بھی کھلے ذہن سے سوچیں یہ توہین عدالت کی کاروائی نہیں۔ یہ عدالت اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی کہ آپ کو اور ناصر زیدی کو معاون بنایا ہے اور فیصلے میں آپ کی سفارشات کو مدنظر رکھا جائے گابعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے بیان حلفی کے حوالے سے ایک خبر پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیا تھا۔خبر کے مطابق سابق چیف جج نے بیان حلفی میں لکھا ہے کہ ان کے سامنے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج سے فون پر ایک مقدمے کے بارے میں بات کی تھی۔
رانا شمیم بیان حلفی کیس: عدالت اظہار آزادی کی روشنی میں فیصلہ کرے گی
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔