تحریر۔۔ فیض اللہ فراق
بھائی ! یہ گلگت بلتستان پولیس ہے آپ نے شاید انہیں پنجاب پولیس سمجھا تھا، یہاں کی پولیس اپنی روایات کا امین ہے، مہمان نوازی انکے در و بام سے محسوس کی جا سکتی ہے، اب تو اس پولیس کا جنرل بھی ایک روایت پسند قبائیلی ہے جس کی سرشت میں اقدار کی اہمیت اور قانون کی پاسداری ہے۔ یہاں رویوں کا سبق دیا جاتا ہے، یہ الفاظ کراچی کے اس سیاح کے تھے جس کا پرس بہت ساری نقدی و ضروری کاغذات سمیت کہیں گم ہوا اور پھر مل گیا تھا۔ گلگت بلتستان پولیس کے ایک جوان نے مسافر کا پرس اصلی حالت میں اس تک پہنچا دیا تھا۔ پولیس کی فرض شناسی اور دیانت داری پر مسافروں کو حیرت ہوئی تھی، انہیں معلوم تھا کہ بڑے شہروں میں تو پولیس محض چالان کے نام پر بھی کچھ بٹور لیتی ہے، انکے سامنے پولیس کا چہرہ کچھ اور تھا مگر گلگت بلتستان کی پولیس نے انکے سامنے پولیس کی اصل امیج اپنے کردار سے رکھ دی تھی۔ مسافروں نے گلگت بلتستان پولیس کو ڈھیر ساری دعاوں سمیت ان کا شکریہ ادا کیا مگر ہم آج تک اپنی پولیس کے مثبت چہرے کو اجاگر کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اگر ہم گلگت بلتستان کء پولیس کا دیگر صوبوں کی پولیس سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پولیس کا اخلاقی معیار کس قدر اونچا ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ اس بات کی شاید ہے کہ یہاں کی پولیس نے جرائم کی بیخ کنی اور دہشت گردی کے خلاف گراں قدر خدمات انجام دی ہے۔ ایس ایس پی محمد ہلال شہید ہو یا ڈی ایس پی عطا اللہ شہید، سی ٹی ڈی کے شہدا ہوں یا فرقہ وارانہ جنگوں میں اپنے خون دینے والے وہ جوان جن کی بے مثال قربانیوں کے ہم مقروض ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کا قائم ہونے والے آج کے امن کے پس منظر میں ان گمنام شہدا و غازیوں کا لہو شامل ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بڑھتے ہوئے امکانات میں جہاں سیاحتی پولیس کا کردار مثالی ہے وہاں پر خطے کی وادیوں میں بننے والی کمیونٹی پولیس بھی ایک حوصلہ افزا حوالہ ہے۔ امسال لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں قراقرم ہائی وے اور شاہراہ بابوسر پر پولیس کے جوانوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ہزاروں پھنسے مسافروں کو نہ صرف ریسکیو کیا بلکہ سڑک کی بحالی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی پولیس میں جو اپنائیت ، محبت اور خلوص کے رویے موجود ہیں وہ کسی بھی صوبے کی پولیس میں موجود نہیں ہیں البتہ گلگت بلتستان پولیس میں موجود 2 خامیوں کو دور کرنا ناگزیر ہیں، یہاں کی پولیس کو ذات، پات رنگ نسل اور فرقے سے بالا ہوکر ایک خاندان بننے کی ضرورت ہے، پولیس وردی میں ملبوس جوانوں میں جس طرح ظاہری سطح پر یک رنگی، برابری، اور یکسانیت ٹپکتی ہے باطنی طور پر بھی دل ایک ہونا ضروری ہے، ایک رنگ کی وردی، ایک طرز کی کیپ، ایک قسم کے جوتے خارجی سطح پر ان کے ڈسپلن کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں عین اسی طرح اندرونی سطح پر انکے دلوں میں یہ تاثر پختہ ہو کہ وہ ایک خاندان ، ایک قبیلہ، ایک مذہب، ایک اللہ اور ایک رسول ایک کتاب کے ماننے والے ہیں ، پولیس کے فرائض ان نوجوانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں میں پروفیشنلزم کے جز کو شامل کرتے ہوئے قانون کو ہر قیمت پر مقدم رکھیں اور بلاتفریق قانون کی عملداری میں آگے بڑھیں، اس کے علاوہ گلگت بلتستان پولیس کیلئے اظہار کے نت نئے طریقوں اور گفتگو کو بہتر بنانے کیلئے ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے اور یہ سلیقہ بھی ہمارے اظہار کا حصہ ہونا چاہئے کہ ہمارے عمل و کردار کے ساتھ ساتھ ہمارے اخلاق و اظہار سے بھی لوگ متاثر ہوں اور جرم کرنے والا بھی ہماری پولیس سے خوف محسوس کرنے کے بجائے سزا و جزا کو یکساں قبول کرے۔ پولیس کی شناخت اس وقت اپنی روح کو برقرار رکھتی ہے جب پولیس مظلوم کی آخری امید بن جائے اور ایسا تاثر قائم ہو کہ کوئی بھی مظلوم پولیس کو دیکھتے ہوئے اپنے لئے خیر، عافیت اور سکون تصور کرے۔ موجودہ آئی جی پولیس گلگت بلتستان وزیر سعید صاحب کی پاکستان بھر میں محکمہ پولیس میں انجام دینے والی خدمات کا ہر آدمی معترف ہے اور گزشتہ ایک سال سے جی بی پولیس کو جدید خطوط پر استور کرنے میں بھی ایک مثالی کردار ادا کیا ہے اب امید یہ کی جاتی ہے آئی جی صاحب گلگت بلتستان پولیس میں موجود چند ایک خامیوں کو بھی اپنے وسیع تجربے اور مہارتوں کی روشنی میں دور کرتے ہوئے ہماری پولیس کو دنیا کی نمبر ون پولیس بنانے میں کردار ادا کریں گے تب ایک کراچی والا سیاح نہیں بلکہ پورا پاکستان یہاں کی پولیس کو اپنے لئے آئیڈیل سمجھے گا اور ہم اپنی پولیس کو اپنا مان سمجھتے ہوئے فخر محسوس کریں گے۔۔۔